یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اے ایمان والو! اللہ کا یہ احسان یاد رکھو کہ جب ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے تمہاری طرف (بڑھنے والے)ان کے ہاتھ روک دیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

11۔ یہ آیت کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کو دشمن کی ایک اہم اور خطرناک سازش سے بچایا۔ اس سلسلہ میں کئی ایک واقعات نقل کرتے ہیں اور شان نزول ان میں سے کون سا واقعہ ہے؟ اس میں اختلاف ہے

اسلام کی نشو و نمامیں پیش آنے والے حالات و تاریخ بیان کرنے کے ساتھ یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ راہ خدا میں خالصانہ کام کرنے والوں کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکام ہو جاتی ہیں۔

وَ لَقَدۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۚ وَ بَعَثۡنَا مِنۡہُمُ اثۡنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ ؕ لَئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیۡتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَ عَزَّرۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَقۡرَضۡتُمُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ فَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا اور اللہ نے (ان سے) کہا: میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اگر تم میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو تو میں تمہارے گناہوں کو تم سے ضرور دور کر دوں گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد تم میں سے جس کسی نے بھی کفر اختیار کیا بتحقیق وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔

12۔ بنی اسرائیل 12 قبیلوں پر مشتمل تھا۔ ہر قبیلے کے لیے ایک نقیب مقرر کیا گیا تھا جو اپنے اپنے قبیلے کے حالات پر نظر رکھے۔ بائبل سے بھی یہی تعداد سامنے آئی ہے کہ ان نقیبوں یا سرداروں کی تعداد بارہ تھی۔

وَ اٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ : رسولوں پر ایمان اور ان کی نصرت سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے رسولوں پرایمان اور ان کی مدد ہے۔

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً ۚ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۙ وَ نَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنۡہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اصۡفَحۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ پس ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے اور آئے دن ان کی کسی خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں البتہ ان میں سے تھوڑے لوگ ایسے نہیں ہیں، لہٰذا ان سے درگزر کیجیے اور معاف کر دیجئے، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

13۔ لعن دور کر دینے کے معنوں میں ہے یعنی رحمت سے دور۔

قٰسِیَۃً : پتھر کی سختی سے ماخوذ ہے۔ وہ اہم حصہ جو بنی اسرائیل نے فراموش کر دیا، خاتم الانبیاء صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت پر ایمان اور ان کی نصرت ہے۔ سابقہ آیت میں اس بات کا ذکر آ چکا ہے۔

وَ مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰۤی اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَہُمۡ فَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۪ فَاَغۡرَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ سَوۡفَ یُنَبِّئُہُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ہم نے ان لوگوں سے (بھی) عہد لیا تھا جو کہتے ہیں: ہم نصاریٰ ہیں پس انہوں نے (بھی) اس نصیحت کا ایک حصہ فراموش کر دیا جو انہیں کی گئی تھی، تو ہم نے قیامت تک کے لیے انکے درمیان بغض و عداوت ڈال دی اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ عنقریب انہیں جتا دے گا۔

14۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا اہم حصہ باہمی امن و آشتی اور محبت و ہم آہنگی تھا۔ لیکن جب نصاریٰ نے اللہ کی طرف سے کی گئی نصیحتوں کو فراموش کر دیا تو نتیجتاً اللہ نے ان کے دلوں سے خود ان کی اپنی شامت اعمال کی وجہ سے جذبہ محبت کو ختم کر کے اس کی جگہ باہمی عداوت و دشمنی ڈال دی۔

یہود و نصاریٰ پر اللہ کی نعمت، ان کے ساتھ عہد و میثاق کا ذکر کرنے سے پہلے خود مسلمانوں پر اللہ کا جو احسان ہوا ہے، اس کا ذکر کیا، تاکہ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ اللہ کی کائناتی سنت کیا ہے۔ وہ قومیں جو اللہ کی نعمتوں کے بارے میں نا شکری کی مرتکب ہوئی ہیں اور اللہ کے عہد و پیمان کے بارے میں بدعہدی کرتی ہیں ان کا انجام کیا ہوتا ہے، مسلمانوں کے لیے اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیں جن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔

15۔ 16۔ اہل کتاب کے علماء نے دینی کتابوں میں جو تحریف و تبدیلی کی ہے، اس کے سلسلے میں اس سے قبل مختلف مقامات پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اس آیت میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے، وہ یہ کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ناخواندہ قوم سے تعلق رکھنے اور کسی انسانی مکتب میں تعلیم حاصل نہ کرنے کے باجود اور باجود اس کے کہ حجاز میں کبھی بھی کوئی تعلیمی مرکز نہ رہا اور اس ماحول میں تعلیم کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا۔ ان سب باتوں کے باجود یہ رسول توریت و انجیل کی جو باتیں ان کے علماء چھپاتے تھے، انہیں کھول کر توریت و انجیل کے حوالے سے بیان فرماتے تھے۔ اسی لیے بہت سے علمائے اہل کتاب نے ایمان قبول کیا کہ انہیں یقین حاصل ہو گیا کہ ان باتوں پر علم حاصل کرنے کا کوئی دنیاوی ذریعہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس نہ تھا، نہ اب ہے، اس کے باجود ان تمام باتوں کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں جنہیں یہ لوگ چھپاتے تھے۔ یہ رسول کی رسالت کی حقانیت پر ایک بین دلیل ہے۔

یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۱۶﴾

۱۶۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ؕ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّہۡلِکَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: عیسیٰ بن مریم ہی خدا ہے، ان سے کہدیجئے: اللہ اگر مسیح بن مریم ، ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کر دینا چاہے تو اس کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

17۔تاریخ کے مختلف ادوار میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں مسیحیوں کے نظریات ٹوٹتے بنتے رہے مثلاً ٭ اللہ نے مسیح میں حلول فرمایا۔ اس طرح مسیح ہی خدا ہے۔ ٭ مسیح تین خداؤں میں سے ایک ہے اور ابن کے مقام پر فائز ہے۔ ٭ وہ انسان بھی ہے اور خدا بھی۔ وہ اللہ سے جدا بھی ہے اور اس میں شامل بھی۔ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا یعنی اللہ کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ چنانچہ انجیل متی 37 : 46 میں آیا ہے کہ جب مسیح سولی چڑھ رہے تھے تو انہوں نے فرمایا : خدایا خدایا تو نے مجھے اس حال پر کیوں چھوڑا؟

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ وَ النَّصٰرٰی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ قُلۡ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ بِذُنُوۡبِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۫ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۸﴾

۱۸۔اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجئے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

18۔ یہ بات یہودیوں میں ایک مسلمہ ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ موجودہ بائبل 4: 22 میں آیا ہے کہ خداوند نے فرمایا: اسرائیل میرا بیٹا بلکہ پلوٹھا ہے۔ مسیحی بھی اپنے آپ کو فرزند خدا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ انجیل متی 5 : 9 اور 8 : 14 میں آیا ہے۔

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ عَلٰی فَتۡرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا جَآءَنَا مِنۡۢ بَشِیۡرٍ وَّ لَا نَذِیۡرٍ ۫ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَشِیۡرٌ وَّ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ اے اہل کتاب! ہمارے رسول بیان (احکام) کے لیے رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا نہیں آیا،پس اب تمہارے پاس وہ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا آ گیا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

19۔ فَتۡرَۃٍ : فتور، ماند پڑنے کے معنوں میں ہے اور اسی سے کسی سلسلے کے منقطع ہونے کے لیے بھی فترۃ استعمال ہوتا ہے۔

وہ رسول آ گیا جس کی آمد کی بشارت توریت اور انجیل نے دی ہے۔ تحریف و تغییر کے باوجود آج کل کے نسخوں میں بھی مختلف مقامات پر اس بشارت کی گواہی مل جاتی ہے۔

چونکہ یہ رسول، رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت تک منقطع ہونے کے بعد آرہا ہے، اس لیے وسیع پیمانے پر تحریف و تغیر واقع ہوئی۔ اس لیے یہ رسول ان حقائق کو کھول کر بیان کرے گا جن میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد ایک ناخواندہ قوم سے رسول ان حقائق کو بیان کرتا ہے جو صدیوں قبل حضرت عیسی علیہ السلام نے بیان کیے ہیں۔ خود اپنی جگہ رسول کی حقانیت پرایک دلیل ہے۔

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہیں عنایت کی ہے، اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے،تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اس نے عالمین میں کسی کو نہیں دیا۔

20۔ بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے چند ایک نعمتوں کا ذکر ہے: 1۔ بنی اسرائیل میں انبیاء پیدا کیے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء اس قوم میں پیدا ہوئے اور کسی قوم میں اس تعداد میں انبیاء مبعوث نہ ہوئے، جس قدر بنی اسرائیل سے پیدا ہوئے ہیں۔ 2۔ ملوک بادشاہوں کے معنوں میں لیا جائے تو بنی اسرائیل میں حضرت یوسف، حضرت سلیمان اور حضرت طالوت علیہم السلام و دیگر بادشاہ حکمران رہے ہیں اور اگر ملوک سے مراد خود مختار لیا جائے تو بھی بنی اسرائیل کو ایک لمبی مدت تک ظلم و ذلت سے آزاد ہو کر خود مختاری نصیب ہوئی ہے۔ 3۔ بنی اسرائیل کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہیں دیا گیا، مثلاً دریا کا شق ہونا، من و سلویٰ کا نازل ہونا اور پتھر سے چشمے پھوٹنا وغیرہ ایسی باتیں ہیں جو صرف بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص ہیں۔