آیت 17
 

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ؕ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّہۡلِکَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: عیسیٰ بن مریم ہی خدا ہے، ان سے کہدیجئے: اللہ اگر مسیح بن مریم ، ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کر دینا چاہے تو اس کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

تفسیر آیات

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ: تاریخ کے مختلف ادوار میں حضرت عیسیٰ (ع)کے بارے میں مسیحیوں کے نظریات ٹوٹتے بنتے رہے:

i۔ اللہ نے حضرت مسیح (ع) میں حلول فرمایا، اس طرح حضرت مسیح (ع) ہی خدا ہیں۔

ii۔ حضرت مسیح (ع) تین مستقل خداؤں میں سے ایک ہیں اور ابن کے مقام پر فائز ہیں۔

iii۔ وہ انسان بھی ہیں اور خدا بھی۔ وہ اللہ سے جدا بھی ہیں اور ایک بھی۔

مسیحیت کی اصلاحی تحریک کے نتیجے میں جو مذہب وجود میں آیا (پروٹسٹنٹ) وہ بھی اسی عقیدے پر قائم ہے کہ مسیح (ع) اور اللہ ایک جیسے ہیں۔ دونوں ازلی، غیر مخلوق، غیر محدود ہونے میں برابر ہیں۔

اس آیت میں اس نظریے کی طرف اشارہ ہے، جو مسیح (ع) اور اللہ میں عینیت کا قائل ہے۔ اس نظریے کی رد میں فرمایا :

i۔ اگر مسیح (ع) ہی خدا ہے تو اسے کسی اور ذات کی قہاریت کے تحت مغلوب نہیں ہونا چاہیے، جب کہ وہ مغلوب ہے اور اللہ اسے ہلاک کر سکتا ہے۔

ii۔ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ: اس کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ اس جملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب تمام اہل ارض پر اللہ کی سلطنت ہے تو مسیح (ع) اگر خدا ہے تواس کی سلطنت کس پر ہے؟ چنانچہ انجیل متی ۳۷: ۴۶ کے مطابق خود حضرت مسیح (ع) کا بھی بس نہیں چل رہا تھا۔ چنانچہ جب سولی چڑھ رہے تھے، فرمایا: خدایا! خدایا! تو نے مجھے اس حال پر کیوں چھوڑا؟

iii۔ تمام اہل ارض، مسیح (ع) اور ان کی ماں پر جب اللہ کی سلطنت قائم ہے تو مسیح (ع) اور مریم بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کے محتاج بندے ثابت ہوئے۔

iv۔ مسیح (ع) کے ساتھ ابن مریم کا ذکر خود ایک رد ہے اس نظریے کی کہ آپؑ ابن اللّٰہ ہیں۔

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: یہ جملہ اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ کے آگے کسی کا بس نہیں چل سکتا ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین اور کچھ ان کے درمیان میں ہیں، سب اللہ کی ملکیت میں ہیں کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔

vi۔ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ: ملکیت کی دلیل یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ یعنی کل کائنات پر اللہ کی ملکیت کی نوعیت، قدرت تخلیق ہے۔


آیت 17