آیت 11
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اے ایمان والو! اللہ کا یہ احسان یاد رکھو کہ جب ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے تمہاری طرف (بڑھنے والے)ان کے ہاتھ روک دیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیر آیات

یہ آیت کسی ایسے واقعہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول خدا ؐ اور مسلمانوں کو دشمن کی ایک اہم اور خطرناک سازش سے بچایا۔ اس سلسلے میں کئی ایک واقعات نقل کیے جاتے ہیں اور شان نزول ان میں سے کون سا واقعہ ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ممکن ہے اس آیت کا ان تمام حربوں کی طرف اشارہ ہو جو مشرکین نے اسلام کی نابودی کے لیے استعمال کیے ہیں۔

دشمن سے محفوظ رکھ کر پرامن زندگی کی فراہمی بہت بڑی نعمت ہے: ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ﴿﴾ ۔ (۱۰۲ تکاثر :۸) کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ نعمت سے مراد امن اور صحت ہے۔ (متشابہ القرآن ۲: ۱۰۵)

اس نعمت کی فراہمی پر تقویٰ اور توکل کا حکم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس نعمت کی بقا تقویٰ اور توکل سے مربوط ہے۔ چنانچہ آنے والی دو آیات سے بھی یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تقویٰ اور توکل نعمتوں کی بقا کے لیے ضمانت ہیں۔

۲۔اسلام کی نشوو نما میں پیش آنے والے حالات و تاریخ بیان کرنے کے سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ راہ خدا میں خالصانہ کام کرنے والوں کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکام ہو جاتی ہیں۔


آیت 11