آیات 15 - 16
 

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیں جن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔

یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۱۶﴾

۱۶۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا: اہل کتاب کے علماء نے دینی کتابوں میں جو تحریف و تبدیلی کی ہے، اس کے سلسلے میں اس سے قبل مختلف مقامات پر گفتگو تفصیل سے ہوئی۔ اس آیت میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے۔ وہ یہ کہ رسول کریم (ص) ایک ناخواندہ قوم سے تعلق رکھنے اور کسی انسانی مکتب میں تعلیم حاصل نہ کرنے کے باجود اور باجود اس کے کہ حجاز میں کبھی بھی کوئی تعلیمی مرکز نہ رہا اور اس ماحول میں تعلیم کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا، ان سب باتوں کے باجود یہ رسول (ص) توریت و انجیل کی وہ باتیں جو ان کے علماء چھپاتے تھے، ان کو کھول کر اور توریت و انجیل کے حوالے سے بیان فرماتے تھے۔ اسی لیے بہت سے علمائے اہل کتاب نے ایمان قبول کیا کہ انہیں یقین حاصل ہو گیا کہ ان باتوں پر علم حاصل کرنے کا کوئی دنیاوی ذریعہ محمدؐ کے پاس نہ تھا، نہ اب ہے۔ اس کے باجود ان تمام باتوں کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں جن کو یہ لوگ چھپاتے رہے۔ یہ رسول ؐکی رسالت کی حقانیت پر ایک بین دلیل ہے۔

۲۔ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ: رسول ؐبہت سی ایسی باتوں میں درگزر کرتے ہیں، جن کا تعلق اس امت سے نہیں ہے۔ اس سے اس ممکنہ سوال کا جواب بھی آگیا جو کوئی اٹھا سکتا ہے کہ اہل کتاب نے تو ان باتوں کے علاوہ بھی بہت سی باتوں پر پردہ ڈالا اور چھپایا ہے جن کو رسول اللہؐ نے کھول کر بیان نہیں کیا۔

۳۔ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ: قرآن مجید کی اس آیت میں نور اور کتاب مبین کی تعبیر سے یاد کیا اور فرمایا کہ تمہاری طرف نور آیا ہے۔ ممکن ہے نور سے مراد رسول کریمؐ ہوں اور کتاب مبین سے مراد قرآن کریم۔

۴۔ یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ : اللہ کی رضایت۔ قرآن کریم کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب لوگوں کو ہدایت فراہم فرماتی ہے۔ حقیقی سعادت و نجات اور تمام امور کا دار و مدار رضایت الٰہی پر ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (۹ توبہ: ۷۲)

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۵۔ سُبُلَ السَّلٰمِ: امن و سلامتی کی راہیں، جس میں داخل ہونے کے بعد ہی صحیح معنوں میں انسان کو امن ملتا ہے۔ فرمایا:

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ ۔۔۔ (۶ انعام: ۸۲)

جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا، یہی لوگ امن میں ہیں۔

۶۔ وَ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ: کفر و شرک کی سیاہ تاریکی سے ایمان کی روشنی کی طرف لے جانے والا واحد ذریعہ رضایت الٰہی ہے۔ بِاِذۡنِہٖ ، بعلمہ یا بلطفہ یعنی اذن سے مراد علم ہے یا لطف۔

۷۔ وَ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ: یعنی دین اسلام کی طرف یا جنت کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا۔

اہم نکات

۱۔ رسول کی حقانیت پر ایک بین دلیل یہ ہے کہ رسول(ص) بشری وسائل کے بغیر توریت و انجیل کے احکام و علوم سے واقف تھے۔

۲۔رضائے الٰہی ذریعہ امن و نجات ہے۔ مؤمن کے لیے رضائے الٰہی سے بڑھ کر کوئی اور چیز اہم نہیں ہے۔


آیات 15 - 16