آیت 20
 

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہیں عنایت کی ہے، اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے،تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اس نے عالمین میں کسی کو نہیں دیا۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے چند نعمتوں کا ذکر ہے:

اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ: بنی اسرائیل میں انبیاء پیدا کیے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء اس قوم میں پیدا ہوئے۔ کسی اور قوم سے اس تعداد میں انبیاء پیدا نہیں ہوئے، جس قدر بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں۔

ii۔ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا: ملوک بادشاہوں کے معنوں میں لیا جائے تو بنی اسرائیل میں حضرت یوسف، حضرت سلیمان علیہما السلام اور حضرت طالوت و دیگر بادشاہ حکمران رہے ہیں اور اگر ملوک سے مراد خودمختاری لیا جائے تو بھی بنی اسرائیل کو ایک لمبی مدت تک ظلم و ذلت سے آزاد ہو کر خود مختاری نصیب ہوئی ہے۔

iii۔ وَّ اٰتٰىکُمۡ: بنی اسرائیل کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہیں دیا گیا۔ مثلاً دریا کا شق ہونا، من و سلویٰ کا نازل ہونا اور پتھر سے چشمے پھوٹنا وغیرہ ایسی باتیں ہیں جو صرف بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص ہیں۔

بنی اسرائیل کے لیے ان عظیم نعمتوں کا ذکر تمہید ہے اس واقعہ کے ذکر کی، جس میں ان تمام نعمتوں کے باوجود بنی اسرائیل نے نافرمانی کی اور اپنے نبی کے ساتھ مجرمانہ سلوک کیا۔


آیت 20