آیت 18
 

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ وَ النَّصٰرٰی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ قُلۡ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ بِذُنُوۡبِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ ؕ یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۫ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۸﴾

۱۸۔اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجئے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔یہودی قوم اس بات کو مسلمات میں شامل کرتی ہے کہ وہ اللہ کی برگزیدہ قوم ہے، بلکہ قرآنی تعبیر کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں کا ثبوت موجودہ بائبل تک میں موجود ہے۔ خروج ۴: ۲۲ میں آیا ہے: خدا نے فرمایا کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ پلوٹھا ہے۔

۲۔ مسیحی بھی اپنے کو ابناء اللّٰہ ، اللہ کے بیٹے سمجھتے ہیں۔ چنانچہ عہد جدید میں آیا ہے: امن و امان فراہم کرنے والوں کو بشارت ہو کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ انجیل متی ۵: ۹ اور بولس نے اہل رومیہ کے نام اپنے پیغام میں کہا: جو بھی روح اللہ کی اطاعت میں آتا ہے، وہ اللہ کا بیٹا ہے۔ ۸: ۱۴۔

اللہ تعالیٰ نے اس خرافی عقیدے کے بارے میں فرمایا: اگر تم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہو تو باپ اپنے بیٹے کو، محب اپنے محبوب کو سزا میں نہیں ڈالتا بلکہ محبوب کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتا ہے، جب کہ یہود و نصاریٰ نے جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس کی سزا وہ دنیا میں بھگت چکے ہیں۔ ان پر ظالموں کا مسلط ہونا، ان کی مملکت کا تاراج ہونا اور کئی بار ذلت و خواری کے ساتھ اسیر اعداء ہونا وغیرہ کس سے پوشیدہ ہے۔

۳۔ بَلۡ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ: اس سے ابناء اللّٰہ ہونے کی قطعی رد ہو گئی ہے، کیونکہ ابناء اللّٰہ بشر نہیں ہوں گے، کیونکہ اللہ کی ذات بشر سے بالاتر ہے۔ بفرض محال اگر اس کا کوئی بیٹا ہے تو اسے بشر سے بالاتر ہونا چاہیے۔

۴۔ عذاب و مغفرت کے بارے میں فرمایا کہ اس کا دار و مدار کسی نژاد پر نہیں ہے بلکہ مشیت الٰہی پر ہے۔ یَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ: اور مشیت الٰہی اہلیت و قابلیت پر مبنی ہے اور اہلیت عمل سے مربوط ہے۔

اہم نکات

۱۔یہ کلیہ جہاں یہود و نصاریٰ پر صادق آتا ہے، وہاں دوسرے لوگوں پر بھی صادق آتا ہے کہ کوئی گروہ، نژاد یا گروہی بنیاد پر عذاب الٰہی و قانون خداوندی سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ اس کا قانون سب کے لیے یکساں ہے: اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ﴿﴾ (۳۲ سجدہ: ۱۸) کیا مومن اور فاسق یکساں ہوں گے؟ ہرگز نہیں۔


آیت 18