یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر فرمائی ہے اور پیچھے نہ ہٹنا ورنہ خسارے میں رہو گے۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ فِیۡہَا قَوۡمًا جَبَّارِیۡنَ ٭ۖ وَ اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَا حَتّٰی یَخۡرُجُوۡا مِنۡہَا ۚ فَاِنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَا فَاِنَّا دٰخِلُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ وہ کہنے لگے:اے موسیٰ وہاں تو ایک طاقتور قوم آباد ہے اور وہ جب تک اس (زمین) سے نکل نہ جائے ہم تو اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے۔

قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمَا ادۡخُلُوۡا عَلَیۡہِمُ الۡبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلۡتُمُوۡہُ فَاِنَّکُمۡ غٰلِبُوۡنَ ۬ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔خوف (خدا) رکھنے والوں میں سے دو اشخاص جنہیں اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے: دروازے کی طرف ان پر حملہ کر دو پس جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو فتح یقینا تمہاری ہو گی اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔

23۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکلنے کے بعد اپنی قوم کے ہمراہ دشت فاران یعنی جزیرہ نمائے سینا میں مقیم رہے۔ انہیں فلسطین فتح کرنے کا حکم الہٰی ملا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فلسطین پر فوج کشی سے پہلے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی نمائندگی میں بارہ افراد فلسطین کا جائزہ لینے کے لیے بھیجے۔ ان میں سے دس افراد نے فوج کشی کے خلاف رپورٹ دی تو پوری جماعت نے جنگ سے انکار کر دیا۔ اس نافرمانی کی انہیں سزا سنائی گئی کہ بنی اسرائیل چالیس سال تک دشت فاران میں سرگرداں رہیں گے اور فلسطین کی فتح سے پہلے اس وقت کے تمام نافرمان لوگ مر جائیں گے، سوائے یوشع اور کالب کے، جنہوں نے جنگ کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ پورے چالیس سال اس دشت میں بے سر و سامانی کے عالم میں پھرتے رہے۔ شرق اردن فتح ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا اور حضرت یوشع علیہ السلام کے عہد میں بنی اسرائیل فلسطین کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے آپ اور آپ کا رب جا کر جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ موسیٰ نے کہا: میرے رب! میرے اختیار میں میری اپنی ذات اور میرے بھائی کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا تو ہم میں اور اس فاسق قوم میں جدائی ڈال دے۔

قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ (اللہ نے) فرمایا:وہ ملک ان پر چالیس سال تک حرام رہے گا، وہ زمین میں سرگرداں پھریں گے، لہٰذا آپ اس فاسق قوم کے بارے میں افسوس نہ کیجیے۔

26۔ اس واقعے کے بیان سے اللہ کا طریقہ کار اور تمام اقوام کے ساتھ سنت الٰہیہ کا بیان مقصود ہے کہ قوموں کا زوال و ترقی، عزت و وقار اور ذلت و خواری ان کے اپنے کردار سے مربوط ہے اور قوموں کی تقدیر خود ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھی جاتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال اور عبرتناک درس بنی اسرائیل کا یہ واقعہ ہے۔ یعنی جو قوم اپنی قیادت کی نافرمانی کرے اور جس قوم میں دیانتداروں کو کوئی حیثیت حاصل نہ ہو، وہ قوم ذلت و خواری سے دو چار رہے گی۔

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۲۷﴾ ۞ؒ

۲۷۔ اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔

27۔ قبولیت اعمال کے لیے تقویٰ بنیاد ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے: لَا یَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَی وَ کَیْفَ یَقِلُّ مَا یُتَقَبَّلُ ۔ (نہج البلاغۃ۔ حکمت:95) تقویٰ کے ساتھ عمل تھوڑا نہیں ہوتا۔ بھلا وہ عمل تھوڑا کس طرح ہو سکتا ہے جسے اللہ نے قبول کیا ہو۔

اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قربانی کیا چیز تھی، البتہ دوسری جگہ اس کا ذکر ملتا ہے کہ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آنے والی آتش اسے جلا دے۔ ملاحظہ فرمائیں سورﮤ آل عمران آیت 183۔

لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے رب اللہ سے ڈرتا ہوں۔

اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۚ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۲۹﴾

۲۹۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔

فَطَوَّعَتۡ لَہٗ نَفۡسُہٗ قَتۡلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصۡبَحَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی تو اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں (شامل) ہو گیا۔

30۔ انسان کی موجودہ نسل میں واقع ہونے والا پہلا خونی واقعہ اور اس کرہ ارض پر بہنے والا پہلا ناحق خون اور اولاد آدم علیہ السلام میں وقوع پذیر ہونے والا پہلا معرکہ حق و باطل۔ یہ معرکہ خیر و شر، ظلم و عدل، قساوت و رحم، تجاوز اور صبر، اطاعت و نافرمانی اور سعادت و شقاوت کا نمونہ ہے۔ اس معرکے میں ہابیل حق اور قابیل باطل کا کردار ادا کرتا ہے۔