فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً ۚ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۙ وَ نَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنۡہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اصۡفَحۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ پس ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے اور آئے دن ان کی کسی خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں البتہ ان میں سے تھوڑے لوگ ایسے نہیں ہیں، لہٰذا ان سے درگزر کیجیے اور معاف کر دیجئے، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

13۔ لعن دور کر دینے کے معنوں میں ہے یعنی رحمت سے دور۔

قٰسِیَۃً : پتھر کی سختی سے ماخوذ ہے۔ وہ اہم حصہ جو بنی اسرائیل نے فراموش کر دیا، خاتم الانبیاء ﷺ کی نبوت پر ایمان اور ان کی نصرت ہے۔ سابقہ آیت میں اس بات کا ذکر آ چکا ہے۔