آپؐ کی عہدین سے واقفیت


یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیں جن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔

15۔ 16۔ اہل کتاب کے علماء نے دینی کتابوں میں جو تحریف و تبدیلی کی ہے، اس کے سلسلے میں اس سے قبل مختلف مقامات پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اس آیت میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے، وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ ایک ناخواندہ قوم سے تعلق رکھنے اور کسی انسانی مکتب میں تعلیم حاصل نہ کرنے کے باجود اور باجود اس کے کہ حجاز میں کبھی بھی کوئی تعلیمی مرکز نہ رہا اور اس ماحول میں تعلیم کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا۔ ان سب باتوں کے باجود یہ رسول توریت و انجیل کی جو باتیں ان کے علماء چھپاتے تھے، انہیں کھول کر توریت و انجیل کے حوالے سے بیان فرماتے تھے۔ اسی لیے بہت سے علمائے اہل کتاب نے ایمان قبول کیا کہ انہیں یقین حاصل ہو گیا کہ ان باتوں پر علم حاصل کرنے کا کوئی دنیاوی ذریعہ محمد ﷺ کے پاس نہ تھا، نہ اب ہے، اس کے باجود ان تمام باتوں کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں جنہیں یہ لوگ چھپاتے تھے۔ یہ رسول کی رسالت کی حقانیت پر ایک بین دلیل ہے۔