وَ قَالُوۡا لِجُلُوۡدِہِمۡ لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا ؕ قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ خَلَقَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ تو وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ جواب دیں گی: اسی اللہ نے ہمیں گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی دی اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

21۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن ہر وہ چیز بول اٹھے گی جس سے انسانی عمل کا ربط ہے نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہر چیز اپنی جگہ شعور رکھتی ہے، خواہ دنیا میں ہم ان کے شعور کا شعور نہیں رکھتے۔ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا (زلزال:4) اس دن زمین اپنی سرگزشت سنا دے گی۔

وَ مَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَتِرُوۡنَ اَنۡ یَّشۡہَدَ عَلَیۡکُمۡ سَمۡعُکُمۡ وَ لَاۤ اَبۡصَارُکُمۡ وَ لَا جُلُوۡدُکُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعۡلَمُ کَثِیۡرًا مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور تم (گناہ کے وقت) اپنے کان کی گواہی سے اپنے آپ کو چھپا نہیں سکتے تھے اور نہ اپنی آنکھوں اور نہ اپنی کھالوں کی (گواہی سے) بلکہ تمہارا گمان یہ تھا کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر نہیں ہے۔

22۔ یہ غافل انسان اس بات کی طرف متوجہ نہیں کہ اس کی ہر حرکت ہر سو اور ہر جانب سے زیر نظر ہے۔ اول تو خود اللہ تعالیٰ براہ راست اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے، اس کے ہر عمل کی نگرانی کر رہا ہے۔ پھر زمین کی نظر بھی اس کی ہر حرکت پر جمی ہوئی ہے۔ قیامت کے دن زمین بھی گواہی دے گی، اس کے علاوہ دوسرے گواہان بھی۔

وَ ذٰلِکُمۡ ظَنُّکُمُ الَّذِیۡ ظَنَنۡتُمۡ بِرَبِّکُمۡ اَرۡدٰىکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور یہ تمہارا گمان تھا، جو گمان تم اپنے رب کے بارے میں رکھتے تھے اسی نے تمہیں ہلاک کر دیا اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گئے۔

23۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: مومن کو چاہیے کہ اس طرح اللہ کا خوف رکھے گویا کہ وہ آتش کے دھانے پر ہے اور اس طرح امید رکھے کہ گویا وہ اہل جنت میں سے ہے، پھر آیہ ذٰلِکُمۡ ظَنُّکُمُ الَّذِیۡ ظَنَنۡتُمۡ بِرَبِّکُمۡ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِہِ اِنْ خَیْراً فَخَیْراً وَ اِنْ شَرّاً فَشَرّاً ۔ یعنی اللہ اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہے، اچھا گمان ہو تو اچھا برتاؤ ہو گا اور برا گمان ہو تو برا برتاؤ۔ (الکافی 8: 302۔ مجمع البیان)

فَاِنۡ یَّصۡبِرُوۡا فَالنَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّسۡتَعۡتِبُوۡا فَمَا ہُمۡ مِّنَ الۡمُعۡتَبِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ پس اگر وہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا آتش ہے اور اگر وہ معذرت کریں تو ان کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔

وَ قَیَّضۡنَا لَہُمۡ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوۡا لَہُمۡ مَّا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۚ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ اور ہم نے ان کے ساتھ ایسے ہم نشین لگا دیے تھے جو انہیں ان کے اگلے اور پچھلے اعمال کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے اور ان پر بھی وہی فیصلہ حتمی ہو گیا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی امتوں پر لازم ہو چکا تھا، وہ یقینا خسارے میں تھے ۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں: اس قرآن کو نہ سنا کرو اور اس میں شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب آ جاؤ۔

26۔ جس کسی کے پاس عقل و منطق نہ ہو گی وہ دوسرے کا کلام، اس کی دلیل و مؤقف کو سننا گوارا نہیں کرے گا۔ کفار مکہ کے پاس قرآن کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی منطقی دلیل نہ تھی۔ سو وہ یہ کوشش کرتے تھے کہ قرآن کو ہرگز نہ سنیں۔

فَلَنُذِیۡقَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَذَابًا شَدِیۡدًا ۙ وَّ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پس ہم کفار کو ضرور بالضرور سخت عذاب چکھائیں گے اور انہیں ان کے برے اعمال کی بدترین سزا ضرور دیں گے۔

ذٰلِکَ جَزَآءُ اَعۡدَآءِ اللّٰہِ النَّارُ ۚ لَہُمۡ فِیۡہَا دَارُ الۡخُلۡدِ ؕ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ یہی آتش دشمنان خدا کی سزا ہے۔ اس میں ان کے لیے ہمیشہ کا گھر ہے، یہ اس بات کی سزا ہے کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡہُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِیَکُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور کفار کہیں گے: اے ہمارے رب! جنوں اور انسانوں میں سے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا دونوں کو ہمیں دکھا دے تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوار ہوں۔

29۔ دنیا میں جن فریب کار شیاطین انس و جن کے دھوکے میں رہے، قیامت کے دن پتہ چلے گا کہ ان رہنماؤں نے ان کو کہاں پہنچایا ہے۔ ہمارے بعض معاصر لوگ اپنے سادہ لوح معتقدین کو خون مسلم سے ان مہینوں میں اپنے ہاتھ رنگین کرنے پر آمادہ کرتے رہے، جن حرمت کے مہینوں میں جاہلیت کے لوگ بھی انسان کے خون میں ہاتھ نہیں ڈالتے تھے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ جو کہتے ہیں: ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

30۔ یہ بلا انحراف تادم مرگ ایمان پر قائم رہنے والوں کا ذکر ہے۔ حدیث نبوی میں آیا ہے کہ رَبُّنَا اللّٰہُ کہنے والے بہت ہیں مگر بعد میں اکثر کافر ہو جاتے ہیں۔

قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ : اللہ کی ربوبیت کا اقرار نفی شرک ہے۔ نفی شرک کا مطلب تکوین و تشریح میں اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنا ہے۔

ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا : اللہ کی ربوبیت اور اس کے تقاضوں پر تا دم مرگ استقامت کے ساتھ، یعنی بغیر انحراف کے قائم رہنا ہے۔ استقامت والوں میں سے مرتد اور منافق خارج ہو ہی گئے، ساتھ وہ لوگ بھی خارج ہو گئے جو حدیث کے الفاظ کے مطابق ما احدثوا بعدک میں شامل ہیں۔

تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتے ایسے لوگوں پر حالت نزع میں نازل ہوں گے اور جنت کی بشارت دیں گے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نحل آیت 32 اور قبر سے اٹھنے کے وقت بشارت دیں گے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الانبیاء آیت 103۔