آیت 21
 

وَ قَالُوۡا لِجُلُوۡدِہِمۡ لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا ؕ قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ خَلَقَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ تو وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ جواب دیں گی: اسی اللہ نے ہمیں گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی دی اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوۡا لِجُلُوۡدِہِمۡ: انسان کو اپنی کھالوں پر اعتراض ہے۔ انسان اور انسان کی کھال، عقل و شعور میں دو مستقل وجود، سوال و جواب اور گفتگو کے دو فریق ہیں۔ اس گفتگو میں انسان خود اپنی کھال کے مقابلے میں بے بس نظر آتا ہے کہ انسان کھال پر اعتراض اپنی طرف سے کرتا ہے اور کھال اپنے عمل کو اللہ کی طرف نسبت دیتی ہے: اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ اللہ نے گویائی دی۔

یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ گواہی تمام اعضاء نے دی تھی۔ اعتراض صرف کھال پر کیوں؟

جواب: ممکن ہے چونکہ کھال پورے جسم پر محیط ہے لہٰذا اس کی گواہی تمام جرائم پر محیط ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ دیگر اعضاء نے جرم سرزد ہوتے ہوئے دیکھا، سنا ہے اور کھال ایسی ہے کہ اسی کے ذریعے جرم سرزد ہوا ہے۔

۲۔ قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ: اس آیت میں جملہ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ہر چیز کو گویائی دی، سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ہر چیز، جس سے انسانی عمل کا ربط ہو، بول اٹھے گی نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہر چیز اپنی جگہ شعور رکھتی ہے۔ چنانچہ زمین کے بارے میں ارشاد ہوا:

یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ﴿﴾ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ﴿﴾ (۹۹ زلزال: ۴۔ ۵)

اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی۔ کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔

کھال اپنے صاحب کو درس دے رہی ہے جیسے کہ صاحب کو معلوم نہیں ہے اور کھال بہتر جانتی ہے کہ آج ہر چیز میں گویائی آئی ہوئی ہے۔ تجھے میری گویائی پر تعجب ہے۔

۳۔ وَّ ہُوَ خَلَقَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ کھال اپنے صاحب کو یاد دلاتی ہے اللہ وہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا۔ تمہیں گویائی کی قوت دی اور آج اسی کی بارگاہ میں تم حاضر ہو جس نے گویائی کی قوت دی ہے۔


آیت 21