نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾

۳۱۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے ساتھی ہیں) اور یہاں تمہارے لیے تمہاری من پسند چیزیں موجود ہیں اور جو چیز تم طلب کرو گے وہ تمہارے لیے اس میں موجود ہو گی،

31۔ دنیا میں فرشتے اس مومن کو شیاطین سے بچاتے رہے اور آخرت میں پیش آنے والے ہولناک مراحل میں نجات اور جنت کی خوشخبری دیتے جائیں گے۔

نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ﴿٪۳۲﴾

۳۲۔اس ذات کی طرف سے ضیافت کے طور پر جو بڑا بخشنے والا رحیم ہے۔

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں

33۔ انسان اپنی زندگی میں جو بھی باتیں کرتا ہے ان میں سب سے بہترین باتیں وہ ہیں جو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں کی جائیں۔ حدیث میں آیا ہے لئن یہدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من الدنیا و ما فیھا ۔ (منیۃ المرید 101) اللہ تیرے ذریعے ایک آدمی کی بھی ہدایت کرے، یہ تیرے لیے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سب سے بہتر ہے۔چونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خود نیک نہیں ہے اور نیکی پر خود عمل نہیں کرتا، کسی ذاتی مفاد کی خاطر اللہ کی طرف دعوت دے تو اس دعوت میں کوئی ثواب نہیں ہے، بلکہ خود بھی عمل صالح کرنے والا ہو۔ کبھی ممکن ہے آدمی نیک ہو، ہمیشہ نیکی کرتا ہے، لیکن وہ مسلمان نہیں ہے، اسے بھی کوئی اجر نہیں ملے گا۔ لہٰذا اس دعوت کو قیمت ملنے کے لیے ضروری ہے کہ خود دعوت دینے والا قیمت رکھتا ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔

34۔ سابقہ آیت میں دعوت الی الحق کو بہترین گفتار قرار دینے کے بعد اس دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے بہترین ذریعے کی نشاندہی فرمائی اور وہ یہ ہے کہ برائی کو نیکی سے دفع کرنا، جہالت کو علم اور بردباری سے، بداخلاقی کو حسن اخلاق سے، گستاخی کو عفو و درگزر سے، غرض بدسلوکی کو احسان سے دفع کرنا چاہیے۔ ہر انسان اپنی فطرت سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں۔ ان کے اثرات بھی یکساں نہیں ہوتے۔ نیکی کا اولین اثر یہ ہو گا کہ تمہارا جانی دشمن تمہارا جگری دوست بن جائے گا۔

وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور یہ (خصلت) صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔

35۔ برائی کے مقابلے میں احسان کرنا ہر شخص کے بس کا روگ نہیں۔ یہ کام وہ شخص کر سکتا ہے جسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول ہو اور جو صبر و حوصلے کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔ کمال انسانی میں بڑے نصیب والے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور اگر آپ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس کریں تو اللہ کی پناہ مانگیں وہ یقینا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

36۔ کوئی کمینگی کا مظاہرہ کرے تو مدمقابل کو اکسانے کا شیطان کو ایک سنہرا موقع ملتا ہے۔ چنانچہ شیطان کہتا ہے کہ اس کمینے کو سبق سکھانا چاہیے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے وغیرہ۔ یہاں اگر ایسا جذباتی ہیجان آ جائے تو اللہ کی پناہ ڈھونڈنی چاہیے کہ وہی انسان کو شیطان کی اشتعال انگیزی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الَّیۡلُ وَ النَّہَارُ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ؕ لَا تَسۡجُدُوۡا لِلشَّمۡسِ وَ لَا لِلۡقَمَرِ وَ اسۡجُدُوۡا لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَہُنَّ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں، تم نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرتے ہو۔

فَاِنِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فَالَّذِیۡنَ عِنۡدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوۡنَ لَہٗ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ ہُمۡ لَا یَسۡـَٔمُوۡنَ ﴿ٛ۳۸﴾ۯ

۳۸۔ پس اگر یہ لوگ تکبر کرتے ہیں تو جو (فرشتے) آپ کے رب کے پاس ہیں وہ رات اور دن اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور تھکتے نہیں ہیں۔

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنَّکَ تَرَی الۡاَرۡضَ خَاشِعَۃً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡۤ اَحۡیَاہَا لَمُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ زمین کو جمود کی حالت میں دیکھتے ہیں اور جب ہم اس پر پانی برسائیں تو وہ یکایک جنبش میں آتی ہے اور پھلنے پھولنے لگتی ہے، تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی یقینا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے، وہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔

39۔ یہ روز کا مشاہدہ ہے کہ مردہ زمین میں پانی پڑنے سے جان آ جاتی ہے اور سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ غافل انسان اسے روز کا معمول سمجھتا ہے، جبکہ یہ اس قادر مطلق کا کرشمہ ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخۡفَوۡنَ عَلَیۡنَا ؕ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۴۰﴾

۴۰۔ جو لوگ ہماری آیات میں ہیرا پھیری کرتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں کیا وہ شخص جو جہنم میں ڈالا جائے بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کے ساتھ حاضر ہو گا؟ تم جو چاہو کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے یقینا خوب دیکھنے والا ہے۔

40۔ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ : تم جو چاہو کرو۔ یہ اس صورت کا بیان ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جس کو اللہ اپنے حال پر چھوڑ دے اس سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں ہے۔