ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا: دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے، ان دونوں نے کہا: ہم بخوشی آ گئے۔

11۔ دھوئیں سے مراد وہ منتشر مادہ ہو سکتا ہے جو کائنات کی تخلیق سے پہلے فضا میں ایک غبار کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ ممکن ہے یہ مادہ وہی ہو جس کو آج کل کے سائنسدان سحابیے (Nebula) کہتے ہیں۔ تاہم ان سائنسی نظریات پر، جو اکثر تھیوری کے مراحل میں ہوتے ہیں، قرآنی حقائق کا انطباق کرنا درست نہیں ہے۔ زمین و آسمان کا فرمانبردار ہو کر آنا کُنۡ کے جواب میں فَیَکُوۡنُ کی طرح اللہ کے ارادے کے حتمی نفاذ کا ذکر ہے۔

فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا ؕ وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ٭ۖ وَ حِفۡظًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ پھر انہیں دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا اور محفوظ بھی بنایا، یہ سب بڑے غالب آنے والے، دانا کی تقدیر سازی ہے۔

12۔ کائنات کے بنانے میں جو دن صرف ہوئے ہیں ان سے مراد ہمارے یہاں کے دن نہیں ہو سکتے، کیونکہ زمانہ، تخلیق کائنات کے بعد وجود میں آیا ہے۔

”دنیا کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا ہے“۔ فرمانے سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جس قدر تارے اور کہکشائیں انسان کے لیے قابل ادراک ہیں، وہ سب آسمان اول سے متعلق ہیں۔ دیگر آسمانوں کے بارے میں اب تک ہمارے علم میں کچھ بھی نہیں ہے۔ آسمان اول کو ان ستاروں سے مزین کیا اور محفوظ بھی کیا۔ چنانچہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ شہاب ثاقب سے مراد آسمان اول کے ستارے ہیں، جن میں راز ہائے قدرت محفوظ ہیں۔

وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آسمان کا اپنا اپنا نظام ہے، جیسا کہ آسمان اول کو جو ہمارے مشاہدے میں ہے، ستاروں سے مزین کیا۔ باقی آسمانوں کے بارے میں نہیں فرمایا کہ ان میں کس قسم کا نظام نافذ ہے۔ ممکن ہے ان آسمانوں میں زمان و مکان کا وہ تصور موجود نہ ہو جو ہمارے لیے قابل فہم ہے۔

فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُکُمۡ صٰعِقَۃً مِّثۡلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اگر یہ منہ پھیر لیں تو کہدیجئے: میں نے تمہیں ایسی بجلی سے ڈرایا ہے جیسی بجلی قوم عاد و ثمود پر آئی تھی۔

13۔ اگر یہ لوگ ان تعلیمات سے منہ پھیر لیتے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ یعنی خدائے واحد کی بندگی سے ہر قسم کے شرک کی نفی اور دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حساب کے لیے حاضر ہونا وغیرہ سے، تو ان کا حشر وہی ہو گا جو عاد و ثمود کا ہوا ہے۔

اِذۡ جَآءَتۡہُمُ الرُّسُلُ مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِکَۃً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ جب ان کے پاس پیغمبر آگئے تھے ان کے سامنے اور پیچھے سے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو وہ کہنے لگے: اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے نازل کرتا پس جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

14۔ عاد و ثمود کی طرف رسول آئے۔ ان کے سامنے اور پیچھے سے۔ یعنی ایک رسول کے بعد دوسرے رسول آئے۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں: رسولوں نے ہر پہلو سے پیغام پہنچایا۔ کسی پہلو کو تشنہ نہیں رکھا۔ مشرکین رسولوں کے منکر تھے ان کا یہ مؤقف تھا کہ اللہ نے کسی بشر کو رسول نہیں بنایا، نہ ہی بشر اس قابل ہے کہ وہ اللہ کی نمائندگی کرے۔ یہ کام اللہ فرشتوں سے لے سکتا تھا۔ چونکہ کوئی فرشتہ رسول بن کر نہیں آیا، اس لیے اللہ نے کسی رسول کو مبعوث نہیں کیا۔

فَاَمَّا عَادٌ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ قَالُوۡا مَنۡ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ؕ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَہُمۡ ہُوَ اَشَدُّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ مگر عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے؟ (اس طرح) وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔

فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیۡقَہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَخۡزٰی وَ ہُمۡ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ تو ہم نے منحوس ایام میں ان پر طوفانی ہوا چلا دی تاکہ ہم دنیاوی زندگی ہی میں انہیں رسوائی کا عذاب چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

16۔ وہ دن منحوس نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ دن سب کے لیے منحوس ہو جاتے، بلکہ ان دنوں میں عذاب آنے کی وجہ سے یہ دن قوم عاد کے لیے منحوس ہو گئے۔

وَ اَمَّا ثَمُوۡدُ فَہَدَیۡنٰہُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰی عَلَی الۡہُدٰی فَاَخَذَتۡہُمۡ صٰعِقَۃُ الۡعَذَابِ الۡہُوۡنِ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿ۚ۱۷﴾

۱۷۔ اور (ادھر) ثمود کو تو ہم نے راہ راست دکھا دی تھی مگر انہوں نے ہدایت کی جگہ اندھا رہنے کو پسند کیا تو انہیں ان کے اعمال کے سبب ذلت آمیز عذاب کی بجلی نے گرفت میں لے لیا۔

وَ نَجَّیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ﴿٪۱۸﴾

۱۸۔ اور ہم نے انہیں بچا لیا جو ایمان لے آتے تھے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے۔

وَ یَوۡمَ یُحۡشَرُ اَعۡدَآءُ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور جس دن اللہ کے دشمن جہنم کی طرف چلائے جائیں گے تو انہیں روک لیا جائے گا۔

حَتّٰۤی اِذَا مَا جَآءُوۡہَا شَہِدَ عَلَیۡہِمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ اَبۡصَارُہُمۡ وَ جُلُوۡدُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ یہاں تک کہ جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔

20۔ جس جسم کے ساتھ دنیا میں جرم کیا ہے اسی جسم کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ وہی سیل (cell) اکٹھے کر دیے جائیں گے، جن سے دنیا میں اس کا جسم مرکب تھا۔ اگرچہ دنیا میں انسان کا جسم بدلتا رہتا ہے، تاہم اللہ کے لیے یہ کام دشوار نہیں کہ جس جسم کے ساتھ جرم سرزد ہوا ہے، وہی جسم حاضر کیا جائے۔ کوئی جرم جوانی میں سرزد ہوا ہے تو اس جسم سے، بڑھاپے میں سرزد ہوا ہے تو اس جسم سے گواہی لی جائے، چونکہ اس کی ہر حرکت اس کے جسم کے ہر سیل (cell) کے کوڈ میں ملفوف ہو گی۔