آیت 25
 

وَ قَیَّضۡنَا لَہُمۡ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوۡا لَہُمۡ مَّا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۚ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ اور ہم نے ان کے ساتھ ایسے ہم نشین لگا دیے تھے جو انہیں ان کے اگلے اور پچھلے اعمال کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے اور ان پر بھی وہی فیصلہ حتمی ہو گیا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی امتوں پر لازم ہو چکا تھا، وہ یقینا خسارے میں تھے ۔

تفسیر آیات

وَ قَیَّضۡنَا لَہُمۡ قُرَنَآءَ: اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے پاکیزہ ہم نشینوں کو اس کے ساتھ کر دیا ہے۔ اسی سورہ کی آیت ۳۱ میں ہے: ملائکہ اللہ کی ربوبیت پر ایمان پر استقامت دکھانے والوں سے کہیں: نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا۔۔۔۔ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق تھے لیکن کافروں نے ایسے رفیقوں کی ہم نشینی کو قبول نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے ہم نشینوں کے ساتھ مبتلا کر دیا جن کے ساتھ رہ کر حسن و قبح کے پیمانے بدل جاتے ہیں:

وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ (۴۳ زخرف:۳۶)

اور جو بھی رحمن کے ذکر سے پہلوتہی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

۲۔ فَزَیَّنُوۡا لَہُمۡ: ان برے ہم نشینوں نے ان سے ان کا ضمیر چھین لیا اور احساس گناہ ختم کر دیا۔ اب انہیں گناہ اور جرم میں حسن و خوبی نظر آنا شروع ہو گئی۔ یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ اچھے لوگوں سے نفرت کرنے والے لوگ برے لوگوں کی صحبت میں جا پھنستے ہیں۔ پھر حسن و قبیح کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔

۳۔ وَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ: آخر میں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ آ جاتا ہے جیسے گزشتہ امتوں کے بارے میں اسی قسم کے اٹل فیصلے ہوئے تھے جنہیں کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ایسے لوگ زندگی کا سودا ہار جاتے ہیں۔


آیت 25