آیت 23
 

وَ ذٰلِکُمۡ ظَنُّکُمُ الَّذِیۡ ظَنَنۡتُمۡ بِرَبِّکُمۡ اَرۡدٰىکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور یہ تمہارا گمان تھا، جو گمان تم اپنے رب کے بارے میں رکھتے تھے اسی نے تمہیں ہلاک کر دیا اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گئے۔

تشریح کلمات

اردی:

( ر د ی ) اھلک ہلاکت میں ڈال دینا کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تمہارے اس گمان نے تمہیں آج کی ہلاکت سے دوچار کیا کہ اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر ہے۔ اگر اس بات پر تمہارا عقیدہ ہوتا کہ اللہ ہمارے ہر عمل سے آگاہ ہے اور موت کے بعدکی ایک زندگی ہے، وہاں ان اعمال کا حساب دینا ہے تو تم اس ہلاکت سے دوچار نہ ہوتے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ؑنے فرمایا:

مومن کو چاہیے کہ اس طرح اللہ کا خوف رکھے جیسے وہ آتش کے دھانے پر ہے اور اس طرح امید رکھے کہ گویا وہ اہل جنت میں سے ہے پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:

اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ عِنْدَ ظَنَّ عَبْدِہِ اِنْ خَیْراً فخَیْراً وَ اِنْ شَرّاً فَشَرّاً۔ ( الکافی ۸: ۳۰۲)

اللہ اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہے اچھا گمان ہو تو اچھا برتاؤ ہو گا اور برا گمان ہو تو برا برتاؤ ہوگا۔


آیت 23