ہٰذَا خَلۡقُ اللّٰہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ بَلِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ یہ ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے، بلکہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

11۔ خلق و تدبیر ایک ہی ذات سے مربوط ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خلق کوئی کرے، تدبیر کوئی اور کرے۔ مشرکین سے خطاب ہے کہ سابقہ آیت میں مذکور ساری چیزیں اللہ کی تخلیق ہیں، مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ جب سب مانتے ہیں کہ پیدا تو صرف اللہ کرتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ پھر تدبیر بھی صرف اللہ ہی کرتا ہے۔ پس غیر اللہ کے پاس کیا لینے جاتے ہو؟

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور بتحقیق ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا کہ اللہ کا شکر کریں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ یقینا بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

12۔ لقمان کے بارے میں اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وہ ایک عبد صالح اور حکیم تھے۔ بعض روایات کے مطابق حبشی تھے اور سیاہ قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ بعض کے نزدیک ان کا تعلق مصر سے تھا اور بعض کہتے ہیں کہ ان کا تعلق قوم عاد سے تھا جو حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ نکلنے والوں میں شامل تھے۔

عرب لوگ لقمان کی حکمت کے معترف تھے۔ اس لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ عقیدہ توحید کوئی نئی فکر نہیں ہے، بلکہ قدیم ایام میں لقمان حکیم بھی عقیدہ توحید کے داعی تھے۔

وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۴﴾ ۞ؒ

۱۴۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں) بازگشت میری طرف ہے۔

14۔ اس بات کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ والدین کو اولاد پر احسان کرنے کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ یہ بات والدین کی فطرت میں ودیعت ہے کہ والدین اولاد کو جان سے عزیز رکھتے ہیں، جبکہ اولاد کو جانے والی نسل یعنی والدین پر احسان کے حکم کی ضرورت ہے۔ چنانچہ یہ بات اللہ نے شریعت میں رکھی ہے۔

والدین کی شکر گزاری کو اللہ کی شکر گزاری کے ساتھ ذکر کرنے سے والدین کے احترام اور ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہ اللہ کی رحمت ہے کہ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے کہ بڑھاپے کی ناتوانی میں ان کی اس حد تک سفارش فرماتا ہے کہ اسے اپنی ذات کے بعد دوسرے درجے پر رکھتا ہے۔ ماں کو زیادہ خصوصیت کے ساتھ اہمیت دینے کے لیے اولاد کو یاد دلایا جاتا ہے کہ اس نے تمہیں اپنے شکم میں ناتوانی کے ساتھ اٹھائے رکھا۔ پھر دو سال تک تمہیں دودھ پلایا۔ پس والدہ کے اس احسان کو فراموش نہ کرو۔

بچے کو دو سال تک دودھ پلایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ دودھ پلانا جائز نہیں ہے اور انہی دو سالوں کے اندر باقی شرائط کے ساتھ دودھ پلایا جائے تو رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔

وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک قرار دے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ ماننا، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا اور اس کی راہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے، پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔

15۔ والدین خواہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں، اسلام کے نزدیک احترام آدمیت اور مقام انسانیت میں پھر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ عقیدے میں ان کی بات نہ ماننے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق آ جائے۔ عقیدے سے ہٹ کر بھی انسان کا خصوصاً والدین کا ایک انسانی مقام ہوتا ہے۔

یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ﴿۱۶﴾

۱۶۔اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔

16۔ یعنی اللہ سے کائنات کے کسی گوشے میں کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾

۱۷۔ اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو اور جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبر کرو، یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔

وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ اور لوگوں سے (غرور و تکبر سے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

18۔ تکبر و نخوت اور زمین پر اکڑ کر چلنا نفسیاتی بیماری کی علامت ہے، یعنی جس شخص کی شخصیت میں خلا ہو وہ اسے تکبر کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھے کی آواز ہوتی ہے۔

19۔ نہ اکڑ کر چلو، نہ ہی ایسی حقیرانہ چال چلو جو وقار کے خلاف ہو، بلکہ اپنی چال کو اعتدال پر رکھو۔ آواز کا دھیما رکھنا اپنی شخصیت پر اعتماد کی علامت اور آداب کے مطابق ہے۔

اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ؕ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب۔

20۔ تسخیر کا مطلب ہے کسی چیز کو تابع ارادہ بنا دینا۔ آسمان میں موجود سورج، چاند اور ستارے ہماری زندگی کے لیے ضروری سامان فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح زمین ایک مہرباں ماں کی طرح ہمیں اپنی گود میں پالتی ہے۔ ظاہری نعمتیں جیسے اعضائے بدن صحت وغیرہ، باطنی نعمتیں جیسے عقل و ارادہ، وجدانیات وغیرہ، کتنی نعمتیں خود ہمارے اپنے وجود میں ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ قرآن کا یہ مؤقف ہے کہ کسی بھی مؤقف کے لیے خود مؤقف والے کے پاس علم ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کسی ہدایت کنندہ کی طرف سے ہدایت ہونی چاہیے یا آسمانی کتابوں میں سے کوئی کتاب ہونی چاہیے۔ ان دلائل میں سے ایک دلیل بھی نہ ہو اور صرف اندھی تقلید ہو تو وہ مؤقف قابل اعتنا نہیں ہے۔