آیت 17
 

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾

۱۷۔ اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو اور جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبر کرو، یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ : حضرت لقمان انسانی بندگی اور سعادت سے مربوط اہم ترین امور کی نصیحت کر رہے ہیں۔ ان میں نماز کو ہر دور، ہر قوم اور ہر فرد کے لیے بنیادی کردار حاصل ہے اور انسانی شخصیت کی تعمیر میں بھی نماز کی متبادل کوئی چیز نہیں ہے۔

۲۔ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ: نیکی کو رواج دینے اور برائی کو دور کرنے میں کردار ادا کرنے سے معاشرہ پاک ہو جاتا ہے جس کی ہر معاشرے کو ضرورت ہے۔

۳۔ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ: حالات ہمیشہ انسان کے حق میں نہیں ہوا کرتے۔ نامساعد حالات میں صبر سے کام لینے والے مضبوط شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور صبر انسان کو شکست ناپذیر بناتا ہے۔ روایت کے مطابق اس جگہ صبر کا اشارہ امر بمعروف نہی از منکر کی راہ میں پیش آنے والی مشقت اور اذیت میں صبر سے کام لینے کی طرف ہے۔

۴۔ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ: مشقت اور اذیت کے موقع پر صبر سے کام لینا مضبوط ارادے کا مالک ہونے کی علامت ہے:

وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ﴿﴾ (۳ آل عمران: ۱۸۶)

اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔

عزم، نفس کی ایک طاقت و جرأت کا نام ہے۔ جس میں یہ طاقت موجود ہو، اس کے ارادے میں تزلزل نہیں آتا۔

اہم نکات

۱۔ صبر، عزم راسخ اور امر بمعروف و نہی از منکر ہر امت کی ضرورت ہے۔

۲۔ صبر، عزم راسخ اور مضبوط شخصیت کی علامت ہے۔


آیت 17