آیت 19
 

وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھے کی آواز ہوتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ: چال میں اعتدال مطلوب ہے۔ نہ اکڑ کر چلو، نہ ہی ایسی حقیرانہ چال چلو جو وقار کے خلاف ہو:

وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا ۔۔۔۔۔۔ (۲۵ فرقان: ۶۳)

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں۔

چال میں اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی چال کو اس قدر حقیرانہ بھی نہ رکھے کہ اس سے اپنا وقار مجروح کرے۔ عزت نفس کا حفظ بھی واجب ہے اور نہ تکبرانہ چال چلے کہ دوسروں کو حقیر سمجھے۔ اعتدال یہ ہے کہ نہ اپنے آپ کو حقیر دکھائے، نہ دوسروں کو حقیر سمجھے۔

حدیث میں آیا ہے۔

سرعۃ المشی تذہب بہاء المؤمن ۔ ( بحار الانوار ۶۶:۴۸)

تیز چلنے سے مؤمن کا وقار چلا جاتا ہے۔

۲۔ وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ: اور آواز کو دھیمی رکھنا بھی تواضع اور شخصیت میں خلا نہ ہونے کی علامت ہے۔ اونچی آواز سے اعصاب پر منفی اثرات مترتب ہوتے ہیں اور آداب محفل کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ سورۃ الحجرات آیت ۲ میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿﴾

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

آواز اونچی کرنا بے ادبی ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کو اعتنا میں نہ لانے کی وجہ سے اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری وقت میں شور مچانے والوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قوموا عنی میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ ( بخاری کتاب العلم باب کتابۃ العلم )

خصوصاً گدھے کی آواز میں کراہت اس کے بے ہنگم ہونے کی وجہ سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر جانور آواز کے ذریعے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرتا ہے سوائے گدھے کے۔ اس کی آواز بلا وجہ ہوتی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

الْعَطْسَۃُ الْقَبِیحَۃُ ۔ ( الکافی : ۲: ۶۵۶ ۔ مشکوٰۃ الانوار ص ۲۰۷)

(بدترین آواز) بری طرح کی چھینک کی آواز ہے۔

مناسب یہ ہے کہ چھینک کے وقت دونوں ہاتھوں ناک پر رکھ کر آواز کو کنٹرول کیا جائے اور پاس بیٹھے ہوئے لوگ اس چھینک سے پھیلنے والے مضر اثرات سے محفوظ رہیں۔

اہم نکات

۱۔ قرآن راستہ چلنے اور آواز تک کے لیے آداب کی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔


آیت 19