آیت 18
 

وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ اور لوگوں سے (غرور و تکبر سے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

تشریح کلمات

تُصَعِّرۡ:

( ص ع ر ) تصعیر کے معنی ہیں تکبر کی وجہ سے گردن کو ٹیڑھا کرنا۔

مَرَحًا:

( م ر ح ) اس کے معنی ہیں بہت زیادہ اور شدت کی خوشی، جس میں انسان اترانے لگ جائے۔

مُخۡتَالٍ:

( خ ت ل ) خود پسندی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ: غرور تکبر سے لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیرا کرو۔ چنانچہ کوئی اگر کسی کے ساتھ برادری و برابری کی بنیاد پر بات کرتا ہے تو اس کی طرف متوجہ، روبرو ہو کر، اپنے مخاطب پر نگاہ مرکوز کر کے بات کرتا ہے لیکن متکبر شخص اگر کسی سے بات کرتا ہے یا اس کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو چہرہ دوسری طرف کر دیتا ہے۔

۲۔ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا: اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو۔ انسان کی چال اس کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہر قدم اس کی نفسیات کے مطالعہ کے ایک ورق کی حیثیت رکھتا ہے۔

تکبر و نخوت اور زمین پر اکڑ کر چلنا نفسیاتی بیماری کی علامت ہے۔ جس شخص کی شخصیت میں خلا ہو وہ اسے تکبر کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

۳۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ: اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو مُخۡتَالٍ ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرتا ہے۔ خود بین ہے اور ساتھ اس خیال اور واہمے کا فخر و مباہات کے ذریعے اظہار بھی کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ خود بینی اور تکبر شخصیت میں خلا ہونے کی علامت ہے۔


آیت 18