آیت 14
 

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں) بازگشت میری طرف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ: یہ آیت کلام لقمان کے درمیان شکر خدا کی مناسبت سے ذکر کی گئی ہے۔ فرمایا: ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے بارے میں مکرر تاکید کی گئی ہے جب کہ والدین کو اولاد پر احسان کرنے کی کوئی تاکید نہیں ہے کیونکہ یہ بات والدین کی فطرت میں ودیعت ہے کہ والدین اولاد کو جان سے عزیز رکھتے ہیں جب کہ والدین چونکہ جانے والے نسل ہیں ان پر احسان کے حکم کی ضرورت ہے۔ حکمت الٰہی کا تقاضا تھا کہ اس جانے والی نسل کی ضمانت فطرت میں نہیں رکھی۔ چونکہ ان سے عموماً جدائی برداشت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے اس جدائی کو آسان کر دیا۔ اولاد کی طرح فطرت میں ودیعت نہیں فرمایا بلکہ نصیحت کی اور اس تاکید کے ساتھ نصیحت کی کہ خود اللہ کے بعد سب سے پہلے درجے پر والدین کو رکھا۔

۲۔ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ: یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ ماں کو زیادہ خصوصیت کے ساتھ اہمیت دینے کے لیے اولاد کو یاد دلاتا ہے کہ ماں نے تمہیں اپنے شکم میں ناتوانی کے ساتھ اٹھائے رکھا۔ پھر دو سال تک تمہیں دودھ پلایا۔ پس والدہ کے اس احسان کو فراموش نہ کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ماں کا حق باپ کی نسبت زیادہ ہے۔

مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

مَنْ اَبَرُّ قَالَ اُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: اَبَکَ ۔ (الکافی ۲: ۱۵۹)

میں کس پر احسان کروں۔ فرمایا: اپنی ماں پر کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنی ماں پر کہا: پھر کس پر؟ فرمایا اپنی ماں پر۔ کہا: پھر کس پر؟ فرمایا: اپنے باپ پر۔

۳۔ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ: وہ نصیحت یہ ہے کہ پہلے میرا شکر کرو۔ اس کے بعد اپنے والدین کا شکر کرو۔ والدین کے حقوق کی اہمیت پر تاکید اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے خود خالق و رازق اللہ تعالیٰ کے بعد والدین کی شکر گزاری کو درجہ دیا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور رازقیت کا فیض والدین کے ذریعہ پہنچا ہے۔ اس طرح یہ دونوں فیض الٰہی کا ذریعہ بنے ہیں۔

۴۔ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ: اگر کوتاہی ہوئی تو میری بارگاہ میں حاضر ہو کر جواب دینا ہے۔ اس جملے میں ایک تنبیہ ہے کہ والدین کے حقوق کے بارے میں سوال ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ شکر گزاری ایک حکیمانہ کردار ہے۔

۲۔ اللہ کے بعد والدین کی شکر گزاری واجب گرداننا اللہ کی رحمت ہے۔


آیت 14