وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ الشَّیۡطٰنُ یَدۡعُوۡہُمۡ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیۡرِ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے : جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں: ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، خواہ شیطان ان (کے بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو۔

وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا اور سب امور کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔

22۔ وَجْہَہٗٓ : ای ذاتہ و نفسہ۔ وجہ سے ذات مراد لینا قرآنی اصطلاح ہے۔ جیسا کہ فرمایا: کُلُّ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ۔ ای ذاتہ۔ اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذات اللہ کی ملکیت ہے اور ملکیت مالک کے حوالے ہوتی ہے اور اگر مالک کے علاوہ دوسرے تصرفات میں آئے تو یہ انحراف اور بغاوت ہے۔ چنانچہ مالک کے حوالے کر کے اس کے دائرﮤ ملکیت میں نیک کام کیا جائے تو ہر قسم کے انحراف سے بچنے کے لیے مضبوط رسی اس کے ہاتھ میں آ گئی۔

وَ مَنۡ کَفَرَ فَلَا یَحۡزُنۡکَ کُفۡرُہٗ ؕ اِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ فَنُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور جو کفر کرتا ہے اس کا کفر آپ کو محزون نہ کرے، انہیں پلٹ کر ہماری طرف آنا ہے پھر ہم انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں یقینا اللہ ہر وہ بات خوب جانتا ہے جو سینوں میں ہے۔

23۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاطر تسلی کے لیے ہے۔ فرمایا: کفار کے کفر سے آپ محزون نہ ہوں یہ خود اپنے آپ کو شدید عذاب کے سپرد کر رہے ہیں۔

نُمَتِّعُہُمۡ قَلِیۡلًا ثُمَّ نَضۡطَرُّہُمۡ اِلٰی عَذَابٍ غَلِیۡظٍ﴿۲۴﴾

۲۴۔ ہم انہیں (دنیا میں) تھوڑا مزہ لینے کا موقع دیں گے پھر انہیں مجبور کر کے شدید عذاب کی طرف لے آئیں گے۔

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے،: الحمد اللہ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

25۔ مشرکین جب اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق تسلیم کرتے ہیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ اس کائنات کا مدبر بھی اللہ ہے۔ کیونکہ تدبیر تخلیق سے جدا عمل نہیں ہے، بلکہ تدبیر تخلیق مسلسل کا دوسرا نام ہے۔

لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ﴿۲۶﴾

۲۶۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی ملکیت ہے، وہ اللہ یقینا بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

26۔ اللہ کائنات کا مالک بھی ہے اور کائنات سے بے نیاز بھی ہے۔ دوسرے مالک اپنے مملوک کے محتاج ہوتے ہیں، لیکن اللہ اپنی بے احتیاجی کے ساتھ مالک ہے۔ یہی حقیقی مالک ہے۔

وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل (کر سیاہی بن) جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

27۔انسان کے مشاہداتی امور کی روشنی میں، محسوساتی دنیا میں بسنے والوں کے لیے ایک مفروضہ اور ایک مثال ہے۔ کلمات خدا یعنی کلمہ كُنْ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی چیزوں کی ایک اجمالی فہرست تیار کرنا بھی ان درختوں سے بننے والے قلموں اور ان سمندروں سے بننے والی سیاہیوں کے بس میں نہیں ہے، چہ جائیکہ ان کلمات کا احاطہ ہو سکے۔ کیونکہ محدود کے لیے لا محدود کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ سارے سمندر سیاہی بن جائیں تو خود سمندری موجودات کی فہرست تیار کرنے کے لیے بھی ناکافی ہو گا۔

2۔اللہ کے ایک ارادے سے مخلوق وجود میں آ جاتی ہے، خواہ وہ مخلوق ایک ہو یا ایک کھرب۔ لہٰذا اللہ کے لیے خلق اور اعادﮤ خلق، کثرت یا قلت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب یکساں طور پر آسان ہیں۔

مَا خَلۡقُکُمۡ وَ لَا بَعۡثُکُمۡ اِلَّا کَنَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اللہ کے لیے تم سب کا پیدا کرنا پھر دوبارہ اٹھانا ایک جان (کے پیدا کرنے اور پھر اٹھانے) کی طرح ہے، یقینا اللہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ۫ کُلٌّ یَّجۡرِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے؟ سب ایک مقررہ وقت تک چل رہے ہیں اور بتحقیق اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

29۔ اس کائنات کی تدبیر کے سلسلے میں چند ایک شعبوں کا ذکر ہے۔ اس میں سے ایک شعبہ دن رات کا ایک دوسرے میں داخل کرنے کا عمل ہے کہ مختلف موسموں میں رات کا کچھ حصہ دن میں اور دن کا کچھ حصہ رات میں داخل کیا جاتا ہے، جس سے مختلف موسم وجود میں آتے ہیں۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الۡبَاطِلُ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ یہ اس لیے کہ اللہ (کی ذات) ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں وہ پکارتے ہیں سب باطل ہیں اور اللہ ہی برتر و بزرگ ہے۔

30۔ اللہ کی ذات ہی برحق ہے۔ کسی شے کے ثبوت، وجود اور اس کی واقعی اور نفس الامری حالت کو حَقُّ کہتے ہیں۔ صرف اللہ کی ذات ہے جو علی الاطلاق حَقُّ ہے، جو بذات خود موجود ہے۔ اس کا وجود کسی اعتبار اور کسی شرط کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ جب کہ باقی موجودات اللہ کے وجود کا سایہ ہیں، مشروط اور مقید وجود ہیں اور غیر اللہ اگر ارادہ الہٰی کے ساتھ مربوط ہے تو اس کو ایک وجود ظلی حاصل ہو گا، ورنہ وہ باطل اور نیستی محض ہے۔