اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ؕ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب۔

20۔ تسخیر کا مطلب ہے کسی چیز کو تابع ارادہ بنا دینا۔ آسمان میں موجود سورج، چاند اور ستارے ہماری زندگی کے لیے ضروری سامان فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح زمین ایک مہرباں ماں کی طرح ہمیں اپنی گود میں پالتی ہے۔ ظاہری نعمتیں جیسے اعضائے بدن صحت وغیرہ، باطنی نعمتیں جیسے عقل و ارادہ، وجدانیات وغیرہ، کتنی نعمتیں خود ہمارے اپنے وجود میں ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ قرآن کا یہ مؤقف ہے کہ کسی بھی مؤقف کے لیے خود مؤقف والے کے پاس علم ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کسی ہدایت کنندہ کی طرف سے ہدایت ہونی چاہیے یا آسمانی کتابوں میں سے کوئی کتاب ہونی چاہیے۔ ان دلائل میں سے ایک دلیل بھی نہ ہو اور صرف اندھی تقلید ہو تو وہ مؤقف قابل اعتنا نہیں ہے۔