آیت 12
 

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور بتحقیق ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا کہ اللہ کا شکر کریں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ یقینا بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لقمان کے بارے میں اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وہ ایک عبد صالح اور حکیم تھے۔ بعض روایات کے مطابق حبشی اور سیاہ قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ بعض کے نزدیک ان کا تعلق مصر سے تھا اور بعض کہتے ہیں ان کا تعلق قوم عاد سے تھا جو حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ نکلنے والوں میں شامل تھے۔ عرب لوگ لقمان کی حکمت کے معترف تھے اس لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ توحید کا عقیدہ کوئی نئی فکر نہیں بلکہ قدیم ایام سے لقمان حکیم بھی توحید کے عقیدے کے داعی تھے۔

۲۔ وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ: ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا۔ حقائق کے ادراک کی سمجھ دی جس کی وجہ سے وہ لوگوں سے علم و حکمت کی باتیں بیان کرتے تھے۔

۳۔ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ: یہ بات ان کو سمجھا دی کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ شکر خدا حکمت کے مصادیق میں سب سے پہلا مصداق ہے۔ دنیائے حقیقت میں سب سے اہم حقیقت ہے۔ نعمت اور نعمت دہندہ کی قدر دانی کرنا بہت بلند اقدار کا مالک ہونے کی علامت ہے۔ اسی لیے مقام شکر پر کماحقہ فائز ہونے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔

وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ﴿﴾ (۳۴ سبا: ۱۳)

میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔

۴۔ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ: شکر گزاری ایک نعمت، ایک درجہ ہے۔ ایک اہم مقام ہے جس پر فائز ہونے والا خود خوش قسمت ہے۔ اس شکر گزاری کا اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ خدا کسی بندے کی شکر گزاری کا محتاج نہیں ہے۔

۵۔ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ: جو لوگ اللہ کی نعمتوں کی قدر دانی نہیں کرتے وہ خود کو انسان اور عبد ہونے کے مقام اور پھر قدردانی کی قدروں سے محروم کرتے ہیں۔ اللہ کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔


آیت 12