وَ لَوۡ شِئۡنَا لَبَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ نَّذِیۡرًا ﴿۫ۖ۵۱﴾

۵۱۔اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک تنبیہ کرنے والا مبعوث کرتے ۔

51۔ لیکن ہم نے ہر بستی میں تنبیہ کرنے والا رسول نہیں بھیجا۔ ان تمام رسولوں کی جگہ صرف آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا۔ چونکہ صرف آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وجہ سے ہم تمام بستیوں کی طرف رسول بھیجنے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ اس سے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی عظمت اور آفاقیت واضح ہو جاتی ہے۔

فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا﴿۵۲﴾

۵۲۔ لہٰذا آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ ہٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ وَّ ہٰذَا مِلۡحٌ اُجَاجٌ ۚ وَ جَعَلَ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخًا وَّ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور اسی نے دو دریاؤں کو مخلوط کیا ہے، ایک شیریں مزیدار اور دوسرا کھارا کڑوا ہے اور اس نے دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔

53۔ دریا کا میٹھا پانی جب سمندر میں گرتا ہے تو دریا سمندر کے تلخ پانی کے درمیان اپنی شیرینی قائم رکھتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ یہ دونوں پانی وزن میں مختلف ہونے کی وجہ سے آپس میں مخلوط نہیں ہوتے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیۡرًا﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا پھر اس کو نسب اور سسرال بنایا اور آپ کا رب بڑی طاقت والا ہے۔

54۔ ایک ہی بوند سے دو مختلف مخلوقات، نسب اور سسرال، مرد اور عورت وجود میں آتے ہیں، جن کی اصل ایک ہے، نوع ایک ہے اور دونوں کا تعلق ایک بنیاد یعنی انسانیت سے ہے، مگر خصوصیات مختلف، نفسیاتی اور جسمانی تقاضے مختلف ہیں۔ اس کے باوجود ایک دوسرے سے متصادم نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے پرکشش ہیں۔ آپس میں اعتدال برقرار ہے۔

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ لَا یَضُرُّہُمۡ ؕ وَ کَانَ الۡکَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیۡرًا﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جو نہ تو انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ ضرر اور کافر اپنے رب کے مقابلے میں (دوسرے کافروں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔

قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ کہدیجئے: اس کام پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ (چاہتا ہوں) کہ جو شخص چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔

57۔ تبلیغ رسالت پر تم سے اجرت نہیں مانگتا۔ بس میری اجرت یہ ہے کہ تم اپنی خود مختاری کے ساتھ آزادانہ طور پر مَنۡ شَآءَ کی بنیاد پر اپنے رب کا راستہ اختیار کرو۔ اگر اجر مانگتا ہوں تو اپنے لیے نہیں بلکہ تمہارے لیے۔ تمہاری بھلائی اور تمہاری نجات میرا اجر رسالت ہے۔ واضح رہے رب کا راستہ دکھانے والے ہادیان برحق قُرۡبٰی کی محبت بھی خود انسانوں کی بھلائی کے لیے چاہتے ہیں۔

وَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡحَیِّ الَّذِیۡ لَا یَمُوۡتُ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِہٖ ؕ وَ کَفٰی بِہٖ بِذُنُوۡبِ عِبَادِہٖ خَبِیۡرَا ﴿ۚۛۙ۵۸﴾

۵۸۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے اور اس کی ثناء کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اپنے بندوں کے گناہوں سے مطلع ہونے کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے۔

58۔ جو ذات ہمیشہ زندہ ہے اسی پر بھروسا کر کے انسان اپنی شخصیت کے اندر قوت پیدا کر سکتا ہے۔ توکل اس وقت صادق آتا ہے جب وہ اسی ذات کی تسبیح کرے اور گناہ کی صورت میں اس کو حاضر و ناظر سمجھے۔

ۣالَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۚۛ اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا﴿۵۹﴾

۵۹۔ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے (سب کو) چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ نہایت رحم کرنے والا ہے لہٰذا اس کے بارے میں کسی باخبر سے دریافت کرو۔

59۔ سب سے پہلے تو خود رحمن سے زیادہ کوئی ذات باخبر نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ ہستیاں باخبر ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے باخبر رکھا ہے۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَ زَادَہُمۡ نُفُوۡرًا﴿٪ٛ۶۰﴾۩

۶۰۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں: رحمن کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو کہدے؟ پھر ان کی نفرت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔