آیت 49
 

لِّنُحۡیِۦَ بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا وَّ نُسۡقِیَہٗ مِمَّا خَلَقۡنَاۤ اَنۡعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ کَثِیۡرًا﴿۴۹﴾

۴۹۔ تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ دیس کو زندگی بخشیں اور اس سے اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپاؤں اور انسانوں کو سیراب کریں۔

تفسیر آیات

بَلۡدَۃً کے بعد میتاً فرمایا جبکہ میتاً، بلدۃ کی صفت ہونے کے اعتبار سے میتۃ ہونا چاہیے تھا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے: چونکہ بَلۡدَۃً مکان اور موضع کے معنی میں ہے۔ ( الکشاف )

بارش سے غیر آباد اراضی آباد ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں بارش زمین کی روح ہے۔چوپاؤں اور بہت سے انسانوں کو بھی ہم اس بارش کے پانی سے سیراب کرتے ہیں۔

اَنَاسِیَّ کَثِیۡرًا: ’’بہت سے انسانوں کو‘‘ کیسے فرمایا؟ جبکہ سب انسان پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔

جواب یہ ہے: انعام اور انسان دونوں ملا کر تعداد کثیر بنتی ہے نیز ممکن ہے: نسقیہ سقیا کثیرا ہو، ورنہ کثیرین فرماتے۔


آیت 49