آیات 45 - 46
 

اَلَمۡ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیۡفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَ لَوۡ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَیۡہِ دَلِیۡلًا ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کا رب سائے کو کس طرح پھیلاتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو سائے (کے وجود) پر دلیل بنا دیا۔

ثُمَّ قَبَضۡنٰہُ اِلَیۡنَا قَبۡضًا یَّسِیۡرًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ پھر ہم تھوڑا تھوڑا کر کے اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ سورج سائے کے وجود پر دلیل اس لیے ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کی مختلف حالتوں سے مربوط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام تخلیق میں جہاں دھوپ کا اہم کردار ہے بلکہ دھوپ ہی سے زندگی ہے وہاں اس حیات آفرین دھوپ سے بچنا بھی پڑتا ہے۔ اس لیے سایہ کی پناہ فراہم فرمائی۔ سایہ کی فراہمی کے لیے اجسام کو سایہ دار بنایا، ورنہ اجسام شفاف ہوتے تو سایہ وجود میں نہ آتا۔

۲۔ وَ لَوۡ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا: اگر اللہ چاہتا تو اس سایہ کو ساکن بنا دیتا۔ اگرسایہ متحرک نہ ہوتا اور آنے جانے کا نظام نہ ہوتا تو ساکن سایہ سے اس نظام میں خلل پڑتا۔ اگر زمین متحرک نہ ہوتی تو سایہ ساکن ہوتا۔ نظام حیات درہم برہم ہوتا۔ نظام حیات میں ہم لوگ سایہ کے اہم کردار سے غافل رہتے ہیں۔

۳۔ ثُمَّ قَبَضۡنٰہُ اِلَیۡنَا: پھر سورج چڑھنے سے تدریجاً سایہ سمٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اِلَیۡنَا ’’ہم اس سایے کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں‘‘۔ یہاں اپنی طرف کہنے میں کس نکتے کی طرف اشارہ ہے؟ صاحب المیزان اس جگہ فرماتے ہیں:

اشیاء کا موجود ہونے کے بعد مفقود ہونا، معدوم ہونا اور مٹ جانا نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف رجوع ہے۔

ممکن ہے اِلَیۡنَا کا اشارہ الی ارادتنا ہو۔ والعلم عند اللہ ۔

اہم نکات

۱۔ اس کائنات میں دھوپ اور سایہ کا ہونا اور نہ ہونا دونوں اللہ کے تدبیری نظام کے ستون ہیں۔


آیات 45 - 46