وَ لَوۡ یُعَجِّلُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسۡتِعۡجَالَہُمۡ بِالۡخَیۡرِ لَقُضِیَ اِلَیۡہِمۡ اَجَلُہُمۡ ؕ فَنَذَرُ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور اگر اللہ لوگوں کے ساتھ (ان کی بداعمالیوں کی سزا میں) برا معاملہ کرنے میں اسی طرح عجلت سے کام لیتا جس طرح وہ لوگ (دنیا کی) بھلائی کی طلب میں جلد بازی کرتے ہیں تو ان کی مہلت کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی، لیکن جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں مہلت دیے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔

11۔ منکرین، رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتے تھے: اگر آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہیں تو وہ عذاب کیوں نہیں آتا جس کی آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دھمکی دے رہے ہیں۔ جواب میں فرمایا: اگر اللہ تمہیں عذاب دینے میں وہی عجلت کرے جو تم پر رحم کرنے میں فرماتا ہے تو تمہاری مہلت کا وقت ختم ہو چکا ہوتا۔

وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کر دیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

12۔ عام طور پر انسان صرف مصیبت کے وقت سہارا ڈھونڈتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہی واحد سہارا ہے، لہٰذا وہ اسی کے در پر دستک دیتا ہے۔ لیکن جب اس سے تکلیف دور کر دی جاتی ہے۔ جسم صحت مند، دولت فراوان، حالات سازگار اور لوگوں میں باوقار ہو جاتا ہے تو اللہ کو یوں مکمل بھول جاتا ہے جیسے اس ذات سے کبھی کوئی واسطہ ہی نہ پڑا ہو۔

وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا ۙ وَ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ مَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے، ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔

ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

13۔14 مخاطب قوم کو اس کی حیثیت کا احساس دلایا جا رہا ہے کہ تم گزشتہ قوموں کے جانشین اور اسی سنت الٰہی کی زد میں ہو۔ جس امتحانی مرحلے سے وہ گزرے ہیں اسی سے تم بھی گزر رہے ہو۔

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور جب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہدیجئے: مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

15۔عرب جاہلیت کے لیے قرآن عقیدۃً و عملاً قابل قبول نہ تھا۔ عقیدۃً قرآن توحید کی دعوت دیتا ہے اور اللہ کی ذات کے سوا تمام لات وعزیٰ کی نفی کرتا ہے۔ یہاں شرک و بت پرستی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور عملاً قرآن نے جو انسان ساز دستور زندگی پیش کیا ہے وہ سراسر ان کے مفادات اور خواہشات کے خلاف تھا۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ یہ نیا دین ان کے عقائد اور مفادات کو تحفظ دے۔ دوسرے لفظوں میں وہ چاہتے تھے یا تو اس قرآن کو چھوڑ کر ایک اور قرآن ایسا بنا لائیں جو ان کے نظریات و خواہشات کے مطابق ہو یا اسی قرآن میں ترمیم کر کے ان مواد کو نکال دیں جو انہیں پسند نہیں ہیں۔

قُلۡ لَّوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوۡتُہٗ عَلَیۡکُمۡ وَ لَاۤ اَدۡرٰىکُمۡ بِہٖ ۫ۖ فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ کہدیجئے: اگر اللہ چاہتا تو میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا، اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

16۔جواب کا سلسلہ جاری ہے کہ کہ دیجیے کہ یہ قرآن مشیت الہٰی کے تابع ہے، اگر وہ چاہتا تو اس قرآن کو پیش نہ کرتا، جیسا کہ میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، اس مدت میں کوئی قرآن پیش نہیں کیا اور جس شخص نے اپنی چالیس سالہ زندگی کے کسی حصہ میں خیانت نہ کی ہو اور جس کا مزاج جعل، فریب اور جھوٹ سے آشنا ہی نہ ہو وہ یکایک اتنی بڑی فریب کاری کرنا شروع کر دے، ایک پوری کتاب ایک دین اور ایک نظام گھڑ کر اللہ کی طرف نسبت دینا شروع کر دے ممکن نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چالیس سال کی زندگی ان کلام شناس اور فصاحت و بلاغت کے مالک عربوں کے درمیان گزار چکے ہیں۔ انہیں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طرز کلام انداز بیان، اسلوب سخن کا علم تھا۔ کیا قرآن اسی انداز و اسلوب کا مظہر ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس شک کے لیے گنجائش ہے کہ یہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اپنی تصنیف ہے اور اگر ان دونوں اسلوبوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے تو یہ ان کی اپنی تصنیف کیسے ہو سکتی ہے؟

تیسری بات یہ ہے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چالیس سال کی زندگی ان لوگوں کے سامنے گزاری۔ اس مدت میں نہ کسی معلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، نہ کسی سے کتاب پڑھی، نہ کسی قانون کا مطالعہ کیا، نہ کسی دستور زندگی اور نظام حیات سے واسطہ پڑا، نہ شعر و خطابت میں حصہ لیا، آج ایک ایسا کلام پیش کرتے ہیں کہ اسلوب و ترکیب میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور جامع نظام حیات لے کر آتا ہے جو قیامت تک کے لیے قابل عمل ہے۔ لہذا یہ کلام کسی انسان کی تصنیف نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کلام الٰہی ہے۔

فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔پس اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ مجرم لوگ یقینا فلاح نہیں پائیں گے۔

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ اَتُنَبِّـُٔوۡنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھر بھی)کہتے ہیں: یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہدیجئے: کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک و بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخۡتَلَفُوۡا ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ فِیۡمَا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور سب انسان ایک ہی امت تھے پھر اختلاف رونما ہوا اور اگر آپ کا رب پہلے طے نہ کر چکا ہوتا تو ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دیا جاتا جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں۔

19۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اس جگہ فرماتے ہیں: لوگوں کے درمیان دو قسم کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دنیاوی معاملات کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے ختم کیا۔ دوسرا اختلاف خود دین کے بارے میں ہے۔ یہ طبعی اختلاف نہیں بلکہ مفادات کا اختلاف ہے۔ یہاں ہدایت اور ضلالت کی دو راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ عجلت سے کام نہیں لیتا بلکہ ایک وقت تک انہیں مہلت دیتا ہے۔

وَ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ۚ فَقُلۡ اِنَّمَا الۡغَیۡبُ لِلّٰہِ فَانۡتَظِرُوۡا ۚ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ اور کہتے ہیں: اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ پس کہدیجئے:غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

20۔قرآن کی متعدد آیات میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ لوگ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسے محسوس معجزے کا مطالبہ کرتے تھے جیسے سابقہ انبیاء علیہم السلام نے دکھائے ہیں اور قرآن کو معجزہ تسلیم نہیں کرتے تھے اور ساتھ قرآن کے چیلنج کا جواب بھی نہیں دے سکتے تھے۔ اس مطالبہ کا اس آیت میں یہ جواب دیا گیا ہے کہ غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے۔ تم انتظار کرو، فرمائشی معجزے کے بعد اگر ایمان نہ لائے تو مہلت نہیں دی جاتی۔ اس لیے فرمائشی معجزہ نہ دینے کی صورت میں انتظار کے لیے موقع رہ جاتا ہے۔