آیت 12
 

وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کر دیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو حالت امن و سکون میں بھی اللہ کو پکارتے ہوں۔ ورنہ عام طور پر انسان صرف مصیبت کے موقع پر سہارا ڈھونڈتا ہے۔ اس وقت انسان کو پتہ چلتا ہے کہ میں اپنی زندگی کو خود نہیں چلا رہا ہوں۔ اس وقت اسے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہی واحد سہارا ہے۔ لہٰذا وہ اسی کے در پر دستک دیتا ہے لیکن جب اس سے تکلیف دور کر دی جاتی ہے، جسم صحت مند دولت فروان حالات ساز گار اور لوگوں میں باوقار ہو جاتا ہے تو اس در کے نزدیک نہیں بھٹکتا بلکہ وہاں سے ایسے چل دیتا ہے جیسے اس در کے ساتھ کبھی واسطہ پڑا ہی نہیں تھا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان فطرۃً خدا پرست ہے۔ منفی تربیت، مفادات اور خواہشات کی وجہ سے وہ خدا سے دور ہو جاتا ہے۔ جب مصیبت میں یہ عوامل دور ہو جاتے ہیں تو فطرت پھر اپنے خدا کو پکارتی ہے۔

۲۔ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ: ایسے لوگوں کو اسراف کنندہ اس لیے کہا ہے کہ ان لوگوں نے اپنا سرمایہ، متاع، زندگی، عمر کو بیہودگیوں میں خرچ کیا۔ لہٰذا یہ لوگ اپنی زندگی کے ساتھ اسراف کر رہے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مصائب میں مبتلا ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے: دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ ۔۔۔

۲۔ مصیبتوں میں قبولیت دعا کا زیادہ امکان ہوتا ہے: فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ۔۔۔۔

۳۔ اسراف پسند خود پسند ہوتے ہیں : زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ ۔۔۔۔

۴۔ مؤمن امن و سکون کے وقت بھی اللہ کو ایسے پکارتا ہے جیسے مصیبت کے موقع پر پکارتا ہے۔


آیت 12