وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور جب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہدیجئے: مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

15۔عرب جاہلیت کے لیے قرآن عقیدۃً و عملاً قابل قبول نہ تھا۔ عقیدۃً قرآن توحید کی دعوت دیتا ہے اور اللہ کی ذات کے سوا تمام لات وعزیٰ کی نفی کرتا ہے۔ یہاں شرک و بت پرستی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور عملاً قرآن نے جو انسان ساز دستور زندگی پیش کیا ہے وہ سراسر ان کے مفادات اور خواہشات کے خلاف تھا۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ یہ نیا دین ان کے عقائد اور مفادات کو تحفظ دے۔ دوسرے لفظوں میں وہ چاہتے تھے یا تو اس قرآن کو چھوڑ کر ایک اور قرآن ایسا بنا لائیں جو ان کے نظریات و خواہشات کے مطابق ہو یا اسی قرآن میں ترمیم کر کے ان مواد کو نکال دیں جو انہیں پسند نہیں ہیں۔