آیت 20
 

وَ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ۚ فَقُلۡ اِنَّمَا الۡغَیۡبُ لِلّٰہِ فَانۡتَظِرُوۡا ۚ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ اور کہتے ہیں: اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ پس کہدیجئے:غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

قرآن کی متعدد آیات میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ لوگ حضورؐ سے ایسے محسوس معجزے کا مطالبہ کرتے تھے جیسے سابقہ انبیاء علیہم السلام نے دکھائے ہیں۔ قرآن کو معجزہ تسلیم نہیں کرتے تھے اور ساتھ قرآن کے چیلنج کا جواب بھی نہیں دے سکتے تھے۔ اس مطالبے کا اس آیت میں یہ جواب دیا گیا ہے: غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے۔ تم انتظار کرو۔

معجزہ چونکہ ایک امر غیبی ہے جو صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہ مصلحت کے مطابق اس معجزے کو نازل فرماتا ہے۔ انسان ابھی طفولیت کی منزل میں تھا، صرف محسوسات کے سمجھنے کی اہلیت رکھتا اور اللہ کو بھی بتوں کی شکل میں لا کر محسوس بناتا اور پھر اس کی پوجا کرتا تھا، اس لیے ان امتوں کو محسوس معجزہ دیا گیا۔ اللہ کے غیبی علم میں یہ بات تھی کہ انسان کا عہد طفولیت ختم ہونے والا ہے، انسان رشد کو پہنچنے والا ہے اور معقولیت کی منزل پر آنے والا ہے اس لیے اس معجزے کو عقل اور شعور کی بنیادوں پر پیش کیا جانا چاہیے کہ انسان جس قدر عقل و شعور کے مراحل طے کرتا جائے قرآن کا اعجاز اور نمایاں ہوتا جائے۔ شاید آنے والی نسلوں کے لیے قرآن کے بہت سے پوشیدہ اعجازی پہلو سامنے آئیں۔ مزید انتظار کرنا ہو گا تاہم اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کے سوا کوئی معجزہ پیش نہیں کیا کیونکہ معجزے سے مراد مطلق معجزہ نہیں ، فرمائشی معجزہ ہے۔ فرمائشی معجزے کے بعد اگر ایمان نہ لائیں تو مہلت نہیں دی جاتی۔ فوراً عذاب نازل ہو جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن ایک وقتی اور محدود معجزہ نہیں ، دائمی معجزہ ہے۔


آیت 20