وَ اِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَۃً مِّنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُمۡ اِذَا لَہُمۡ مَّکۡرٌ فِیۡۤ اٰیَاتِنَا ؕ قُلِ اللّٰہُ اَسۡرَعُ مَکۡرًا ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَکۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡکُرُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں، کہدیجئے: اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیز ہے، بیشک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں۔

21۔جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ اللہ کی نعمتوں پر بھی ایمان نہیں رکھتے اللہ نے اگر انہیں کسی مصیبت سے نجات دلا دی تو وہ اس کی دوسری توجہیں کرتے ہیں، اس میں اللہ کی مشیت و ارادے کی نفی کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں اس قسم کی تنگی اور راحت سے تو ہمارے باپ دادا بھی دو چار رہے ہیں یعنی یہ طبیعت کا کھیل ہے قدرت کا کرشمہ نہیں۔جو لوگ اللہ کی رحمتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کی مادی توجیہ کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو سامنے معجزہ رکھا جائے تو بھی وہ اس کی کوئی اور توجیہ کریں گے جیسا کہ آج کل کے مغرب زدہ اور شکست خوردہ ذہنوں نے معجزات انبیاء علیہم السلام کی مادی توجیہ کرنا شروع کیا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ ۙ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔

22۔ یہ ان دلائل میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کا تصور ہر انسان کے نفس اور اس کی فطرت میں ودیعت ہے لیکن جب بیرونی رکاوٹیں اس فطرت سلیمہ کے تقاضوں کے خلاف ہوتی ہیں تو انسان فطری راہوں سے منحرف ہو جاتا ہے۔ مثلاً علم دوستی بھی انسانی فطرت میں ودیعت ہے لیکن منفی تربیت جیسی رکاوٹوں کی وجہ سے فطری تقاضے جامۂ عمل نہیں پہن سکتے۔ جب یہ بیرونی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں اور جن ظاہری اسباب کے دھوکے میں یہ گم تھا، وہ سب ٹوٹ جاتے ہیں تو اس وقت فطرت سلیمہ کو اپنا تقاضا پورا کرنے کا موقع ملتا ہے اور بے ساختہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس جگہ اس انسان کو کسی نبی، عالم یا ناصح نے نہیں بلکہ صرف اس کی فطرت سلیمہ نے اسے اللہ یاد دلایا تو یہ مان گیا: مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ پھر اسی کو پکارا۔

فَلَمَّاۤ اَنۡجٰہُمۡ اِذَا ہُمۡ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغۡیُکُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ ۙ مَّتَاعَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ ثُمَّ اِلَیۡنَا مَرۡجِعُکُمۡ فَنُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ پھر جب خدا نے انہیں بچا لیا تو یہ لوگ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے، اے لوگو تمہاری یہ بغاوت خود تمہارے خلاف ہے، دنیا کے چند روزہ مزے لے لو پھر تمہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے پھر اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

23۔ مشروط ایمان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حالت اضطرار سے نکلنے کے بعد پھر کفر و انکار اور بغاوت پر اتر آتا ہے کیونکہ اسے اللہ کی بارگاہ میں معرفت نے نہیں اضطرار نے پہنچایا تھا۔ اضطرار ختم ہونے کے بعد وہ اللہ کی طرف رخ نہیں کرتا۔

اس کے بعد انسانی ضمیر اور وجدان سے خطاب کر کے فرمایا: لوگو ! اس بغاوت سے اللہ کی سلطنت و حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دنیا کے چند دنوں کے عوض آخرت کی ابدی زندگی تباہ کر کے خود تم اپنے خلاف قدم اٹھا رہے ہو۔ اس کا علم تمہیں اس وقت ہو گا جب تم ہماری بارگاہ میں پہنچ جاؤ گے۔ روایت ہے: الناس نیام اذا ماتوا نبتھوا ۔ (بحار الانوار 4:43) لوگ خواب غفلت میں ہوتے ہیں، جب مر جاتے ہیں تو بیدار ہوتے ہیں۔

اِنَّمَا مَثَلُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ مِمَّا یَاۡکُلُ النَّاسُ وَ الۡاَنۡعَامُ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرۡضُ زُخۡرُفَہَا وَ ازَّیَّنَتۡ وَ ظَنَّ اَہۡلُہَاۤ اَنَّہُمۡ قٰدِرُوۡنَ عَلَیۡہَاۤ ۙ اَتٰہَاۤ اَمۡرُنَا لَیۡلًا اَوۡ نَہَارًا فَجَعَلۡنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمۡ تَغۡنَ بِالۡاَمۡسِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ دنیاوی زندگی کی مثال یقینا اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ہم اپنی نشانیاں اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔

24۔ یہ دنیا کی زیب و زینت، یہاں کے کیف و سرور کی بے ثباتی کی ایک مثال ہے کہ انسان خواہ اس محدود زندگی کو کتنا ہی آراستہ و خوشنما بنائے، بالآخر ایک مختصر مدت کے بعد اس زندگی کو ساتھ چھوڑنا ہے، وہ بھی عین اس عالم میں کہ انسان یہاں کی رعنائیوں سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہے، یہاں کی نعمتوں میں نازاں ہے اور دیر تک زندہ رہنے کے آرزو میں مگن ہے۔ عین اس عالم میں اللہ کا حکم آ پڑتا ہے اور روئے زمین سے اس کا وجود ایسا ناپید کر دیا جاتا ہے کہ گویا وہ کل یہاں تھا ہی نہیں۔

کیا انسان ایسی نا پائیدار زندگی کے لیے آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ کرتا ہے؟ یہ غور و فکر کا مقام ہے، اسی لیے آیت کا مخاطب صاحبان غور و فکر ہیں۔

وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ؕ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اللہ (تمہیں) سلامت کدے کی طرف بلاتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے۔

25۔ مقام تعجب ہے کہ مالک اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں اور امن و سلامتی کی طرف بلاتا ہے مگر بندوں کو اس دعوت کے قبول کرنے میں تأمل ہے۔

لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی وَ زِیَادَۃٌ ؕ وَ لَا یَرۡہَقُ وُجُوۡہَہُمۡ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّۃٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروں پر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

26۔ وَ زِیَادَۃٌ سے مراد اصل ثواب اور اس کے دس گنا سے بھی زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ الۡحُسۡنٰی میں دس گنا ثواب ہے اور وَ زِیَادَۃٌ میں کوئی حد بندی نہیں ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ (ق: 35) اس جنت میں وہ سب کچھ ہے جو وہ چاہتے ہیں اور مزید بھی ہے۔ یعنی انسانی خواہشات سے بھی زیادہ نعمتیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنت کی نعمتیں دنیوی فہم و ادراک سے بھی بالاتر ہیں اور انسانی خواہشات جنت کی نعمتوں کے مقابلے میں بہت محدود ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَۃٍۭ بِمِثۡلِہَا ۙ وَ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ عَاصِمٍ ۚ کَاَنَّمَاۤ اُغۡشِیَتۡ وُجُوۡہُہُمۡ قِطَعًا مِّنَ الَّیۡلِ مُظۡلِمًا ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہروں پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں، یہ جہنم والے ہیں، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

27۔ نیکی کا بدلہ تو دس گنا اور اس سے بھی زیادہ ملے گا جبکہ برائی کا بدلہ صرف اسی برائی کے برابر ملے گا، اس سے زیادہ نہیں۔ یعنی جتنی برائی ہے اتنی سزا دی جائے گی۔ اس سزا سے کوئی بچانے والا نہیں ہو گا۔ اگر یہ برائی شرک ہے تو کوئی شفاعت کرنے والا بھی شفاعت نہیں کر سکے گا۔

اس کے بعد اس برائی کا جو بھی بدلہ ہو گا اس کی ایک تصویر یہاں بیان ہوئی کہ ان کو تہ بہ تہ تاریکیوں میں ڈالا جائے گا کہ کچھ بھی دکھائی نہ دے، کیونکہ تاریکی یاس و نومیدی میں مبتلا کرتی ہے۔

وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا مَکَانَکُمۡ اَنۡتُمۡ وَ شُرَکَآؤُکُمۡ ۚ فَزَیَّلۡنَا بَیۡنَہُمۡ وَ قَالَ شُرَکَآؤُہُمۡ مَّا کُنۡتُمۡ اِیَّانَا تَعۡبُدُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور جس دن ہم ان سب کو (اپنی عدالت میں) جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے: تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاؤ، پھر ہم ان میں جدائی ڈال دیں گے تو ان کے شریک کہیں گے: تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔

فَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اِنۡ کُنَّا عَنۡ عِبَادَتِکُمۡ لَغٰفِلِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ پس ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے، تمہاری اس عبادت سے ہم بالکل بے خبر تھے۔

28۔29 مشرکین جن شریکوں کی عبادت کرتے رہے ہیں کل بروز قیامت وہ شریک اس بات کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عبادت ہوتی ہی نہیں ہے۔ ان مشرکوں نے حقیقی معبود کی عبادت کی نہیں اور جن کی عبادت کی تھی وہ معبود تھے نہیں، لہٰذا ان کی یہ عبادت رائیگاں گئی۔ مثلاً ایک شخص ایک انسان کو معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے اور کل اس انسان سے سوال ہو تو وہ انکار کرے گا کہ میری کسی نے عبادت نہیں کی۔ کیونکہ اس نے نہ کسی کی دعا سنی ہے، نہ اس تک کوئی پکار پہنچی ہے، نہ سجدہ و خشوع کا اسے علم ہے۔ اس طرح اس کی یہ عبادت نہ صرف رائیگاں گئی بلکہ مشرک ہونے کی وجہ سے وبال جان بن گئی۔

ہُنَالِکَ تَبۡلُوۡا کُلُّ نَفۡسٍ مَّاۤ اَسۡلَفَتۡ وَ رُدُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ مَوۡلٰىہُمُ الۡحَقِّ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿٪۳۰﴾ ۞ؒ

۳۰۔ اس مقام پر ہر کوئی اپنے اس عمل کو جانچ لے گا جو وہ آگے بھیج چکا ہو گا اور پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جو بہتان وہ باندھا کرتے تھے ان سے ناپید ہو جائیں گے ۔

30۔ دنیا میں انسان اپنے اعمال کے بارے میں غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے لیکن قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو وہ اسے اپنے حقیقی خدو خال میں نظر آئیں گے۔