ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿ۙ۵۱﴾

۵۱۔ یہ عذاب تمہارے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے کا نتیجہ ہے اور یہ کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۵۲﴾

۵۲۔ان کا حال فرعونیوں اور ان سے پہلوں کا سا ہے، انہوں نے اللہ کی نشانیوں کا انکار کیا تو اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں پکڑ لیا، بیشک اللہ قوت والا، سخت عذاب دینے والا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمۡ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعۡمَۃً اَنۡعَمَہَا عَلٰی قَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۵۳﴾

۵۳۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے اور یہ کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

53۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ انسان کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے اور اس پر کوئی بات باہر سے مسلط نہیں ہوتی۔ وہ کسی نعمت کو اپنے لیے جاری رکھ سکتا ہے اور اپنے ہی عمل سے اسے ختم بھی کر سکتا ہے۔ لہٰذا انسان اپنی تقدیر کو خود اپنے عمل کے قلم اور اپنے ارادے کی روشنائی سے لکھتا ہے۔

کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ فَاَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ ۚ وَ کُلٌّ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔جیسے فرعون والوں اور ان سے پہلوں کا حال ہے، انہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاکت میں ڈال دیا اور فرعونیوں کو غرق کر دیا، کیونکہ وہ سب ظالم تھے۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۖۚ۵۵﴾

۵۵۔ یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والوں میں بدترین وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں، پس وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

اَلَّذِیۡنَ عٰہَدۡتَّ مِنۡہُمۡ ثُمَّ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَہُمۡ فِیۡ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ہُمۡ لَا یَتَّقُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔جن سے آپ نے عہد لیا پھر وہ اپنے عہد کو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں۔

56۔ معاہدوں کا احترام باہمی زندگی کے لیے بنیاد اور انسان کا طرﮤ امتیاز ہے۔ اس کا احترام نہ کرنے والے شَرَّ الدَّوَآبِّ (بدترین حیوان) ہیں۔ بنا بریں: ٭ زمانہ صلح میں کسی قسم کا معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا جائز نہیں اور ایسا عمل خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ ٭ اگر دشمن نے معاندانہ طرز عمل اختیار کیا اور یقین ہو گیا کہ دشمن معاہدہ توڑ نے والا ہے تو اس وقت بھی معاہدے کے غیر مؤثر ہونے کے اعلان سے پہلے حملہ کرنا شرعاً جائز نہیں۔ ٭ اگر دشمن معاہدہ فسخ کرنے کا اعلان کر دے اور معاندانہ طرز عمل شروع کر دے تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر عمل میں آیا۔

ان آیات کی شان نزول مدینہ اور اس کے اطراف میں موجود یہودی ہیں جن کے ساتھ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد بہتر تعاون اور باہمی امن و آشتی کا معاہدہ کیا تھا۔ مگر یہودی قبائل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ وہ اوس اور خزرج کی پرانی دشمنی کو اٹھاتے تھے۔ انہوں نے مدینہ کے منافقین اور مکہ کے مشرکین کے ساتھ بھی سازباز شروع کر دی تھی۔

فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّہُمۡ فِی الۡحَرۡبِ فَشَرِّدۡ بِہِمۡ مَّنۡ خَلۡفَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔اگر آپ لڑائی میں ان پر غالب آ جائیں تو (انہیں کڑی سزا دے کر) ان کے ذریعے بعد میں آنے والوں کو بھگا دیں اس طرح شاید یہ عبرت حاصل کریں۔

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِیَانَۃً فَانۡۢبِذۡ اِلَیۡہِمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡخَآئِنِیۡنَ﴿٪۵۸﴾

۵۸۔ اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا خوف ہو تو ان کا عہد اسی طرح مسترد کر دیں جیسے انہوں نے کیا ہے، بیشک اللہ خیانت کاروں کو دوست نہیں رکھتا۔

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَبَقُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ لَا یُعۡجِزُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ کفار یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ نکلے ہیں، وہ (ہمیں) عاجز نہ کر سکیں گے۔

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہو گی۔

58 تا 60- یہاں خطاب پوری امت سے ہے۔ جبکہ معاہدے کے بارے میں خطاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے تھا۔ اس سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ معاہدوں کا برقرار رکھنا یا ختم کرنا سربراہ مملکت کی ذمہ داری ہے اور دفاعی وسائل و سامان حرب فراہم کرنا پوری امت کی ذمہ داری ہے۔

مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس مسئلے میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوم یہ کہ اس میں ہر زمانے کی استطاعت شامل ہے۔

مِّنۡ قُوَّۃٍ : قوت میں اسلحہ، مہارت، تربیت اور تجربے کی قوتیں شامل ہیں۔

رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ : اس زمانے میں گھوڑے سامان حرب میں شامل ہونے کے ساتھ سریع ترین مواصلاتی ذریعہ بھی تھے۔ جنگ میں مواصلات کو آج بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ : اسلحے کی فراہمی کا مقصد صرف اس کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ اکثر اسلحے امن کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ نہیں فرمایا تقتلون بہ تاکہ تم اس سے دشمن کو قتل کرو، بلکہ فرمایا: تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ تاکہ تم اس اسلحے سے دشمن کو مرعوب کرو۔

وَ اٰخَرِیۡنَ : عسکری منصوبہ بندی میں صرف موجودہ صورت حال پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دشمن کی محسوس قوت کے ساتھ غیر محسوس طاقت کا بھی اندازہ لگانا ہو گا۔

وَ مَا تُنۡفِقُوۡا : اس سلسلے میں عوام کی طرف سے مالی معاونت ضروری ہے۔