آیت 59
 

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَبَقُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ لَا یُعۡجِزُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ کفار یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ نکلے ہیں، وہ (ہمیں) عاجز نہ کر سکیں گے۔

تفسیرآیات

اس آیت میں مسلمانوں کے لیے نوید فتح دی گئی ہے کہ عہد شکن عناصر اپنی غیر انسانی سازشوں میں ناکام رہیں گے۔ وہ غضب الٰہی سے بچ نہیں سکیں گے۔

واضح رہے ان آیات کا شان نزول، مدینہ اور اس کے اطراف میں موجود یہودی قبائل ہیں جن کے ساتھ حضورؐ نے مدینے کی طرف ہجرت کے بعد بہتر ہمسائیگی اور باہمی امان و آشتی و تعاون کا معاہدہ کیا تھا لیکن بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ و دیگر یہودی قبائل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے اور ایک طرف اوس اور خزرج کی پرانی دشمنی کو اٹھاتے تھے اور مدینے کے منافقین کو وہ اس مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے، دوسری طرف مشرکین مکہ کے ساتھ بھی ان لوگوں نے سازباز کرنا شروع کر دی اور بعد کی شکست کے بعد تو ان لوگوں نے مکہ کے مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کو ششیں تیز کر دیں۔ یہ سب کچھ اس معاہدے کے باوجود ہو رہا تھا، جس کے مطابق امن کے ساتھ رہنا ان کے لیے لازم تھا۔

یہ آیات ایسے زمانے میں نازل ہو رہی ہیں کہ مسلمان ایک نہایت ہی نازک ترین دور سے گزر رہے تھے:

٭ ایک طرف مسلمان مدینے میں اپنی نوخیز اور مختصر جمعیت کی ترکیب و تشکیل کے دور سے گزر رہے تھے،

٭ دوسری طرف بدر کی شکست کے بعد دشمن کی طرف سے معاندانہ کوشش تیز تر ہو گئیں اور جذبۂ حسد و انتقام میں اور اضافہ ہوگیا،

٭ تیسری طرف مدینہ کے اطراف کے یہود کی سازشیں مزید گہری ہوتی گئیں ،

٭ چوتھی طرف خود مسلمانوں کے اندر منافقین نے بھی ففتھ کالم کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن دشمن کے مقابلے میں نکلتا ہے تو اس الٰہی طاقت کے ساتھ نکلتا ہے جس کے بارے میں فرمایا: اِنَّہُمۡ لَا یُعۡجِزُوۡنَ ۔۔۔۔


آیت 59