آیت 60
 

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہو گی۔

تشریح کلمات

رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ:

ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ حفاظت کے لیے باندھ دینے کے ہیں اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

امت اسلام کو عسکری اعتبار سے چند ضروری اصول و قواعد بیان کیے جا رہے ہیں :

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ: دفاع ایک فطری حق ہے، ہر ذی روح اپنا دفاعی حق رکھتا ہے اور ہر جاندار کے پاس فطری طور پر دفاعی وسائل و اوزار موجود ہوتے ہیں۔

ii۔ یہاں خطاب پوری امت سے ہے جب کہ اس سے پہلے کی آیات میں خطاب رسول کریمؐ سے تھا۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ معاہدوں کا برقرار رکھنا یا فسخ کا اعلان کرنا سربراہان مملکت کی ذمہ داری ہے۔سامان حرب اور دفاعی وسائل فراہم کرنا پوری امت اور عوام کی ذمہ داری ہے۔

iii۔ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ: جہاں تک تم سے ہو سکتا ہے۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں :

اول یہ کہ اس مسئلہ میں کوتاہی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ جہاں تک ممکن ہے سامان حرب کا مہیا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ کسی امت کی زندگی، عزت و وقار، تحفظ و ناموس اور قومی استقلال و خود مختاری کا مسئلہ ہے۔

دوم یہ کہ اس میں ہر زمانے کی استطاعت شامل ہے۔ اس جملے کی تعبیر میں ایسی عمومیت ہے جس میں ہر زمانے کا ہر حربی سامان شامل ہے۔

iv۔ مِّنۡ قُوَّۃٍ: اپنی طاقت و قوت کو مستعد رکھو۔ قوت میں اسلحے کی قوت، مہارت و تربیت اور تجربے کی قوت سب شامل ہیں۔

رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ: اس زمانے میں گھوڑے سامان حرب میں شامل ہونے کے ساتھ سریع ترین مواصلاتی ذریعہ تھے۔ جنگ میں خبر رسانی اور مواصلات کو آج بھی سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا جدید ترین اور سریع ترین حربی و مواصلاتی قوت کا مالک بننا چاہیے۔

vi۔ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ: اسلحہ کی فراہمی میں استعمال ضروری نہیں ہے بلکہ اکثر اسلحہ امن کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس سے دشمن خوفزدہ ہو کر اسلام کے خلاف آسانی سے سازشیں نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا تقتلون بہ تاکہ اس اسلحہ سے تم دشمن کو قتل کرو، بلکہ فرمایا: تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ تاکہ اس اسلحہ سے تم دشمن کو خوفزدہ کرو۔ چنانچہ استعمار صرف اسلحہ اور عسکری بالادستی سے تیسری دنیا کا استحصال کر رہا ہے۔

vii۔ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ: دشمن کو مرعوب کرنا جب مقصد ہے تو اس میں ایک طویل المیعاد عسکری تکنیک کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ دشمن کی صرف موجودہ پوزیشن کو مدنظر نہیں رکھنا ہو گا اور اس عسکری منصوبہ بندی میں صرف موجودہ صورتحال پر نظر نہیں کرنی ہو گی بلکہ دشمن کی محسوس قوت کے ساتھ غیر محسوس قوت کا بھی اندازہ کرنا ہو گا اور دشمن کی ان نامرئی طاقتوں کو بھی پیش نظر رکھ کر کچھ ریزرو طاقت و قوت کی بھی ضرورت ہے۔ اس عسکری اہم تکنیک کی طرف جملۂ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ سے اشارہ فرمایا ہے۔

viii۔ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ: مادی وسائل کی فراہمی کے لیے بھی پوری امت کا حصہ لینا ضروری ہے۔ عوام کی شرکت کے بغیر صرف فوج نہیں لڑ سکتی، اس سلسلے میں عوام کی طرف سے مالی معاونت بھی ضروری ہے۔

اہم نکات

۱۔ امن و سکون اور دشمن کو مرعوب رکھنے کے لیے طاقتور رہنا ضروری ہے۔

۲۔ ایمان و توکل کے ساتھ مادی وسائل کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔


آیت 60