جنگی معاہدوں کا حکم


اَلَّذِیۡنَ عٰہَدۡتَّ مِنۡہُمۡ ثُمَّ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَہُمۡ فِیۡ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ہُمۡ لَا یَتَّقُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔جن سے آپ نے عہد لیا پھر وہ اپنے عہد کو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں۔

56۔ معاہدوں کا احترام باہمی زندگی کے لیے بنیاد اور انسان کا طرﮤ امتیاز ہے۔ اس کا احترام نہ کرنے والے شَرَّ الدَّوَآبِّ (بدترین حیوان) ہیں۔ بنا بریں: ٭ زمانہ صلح میں کسی قسم کا معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا جائز نہیں اور ایسا عمل خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ ٭ اگر دشمن نے معاندانہ طرز عمل اختیار کیا اور یقین ہو گیا کہ دشمن معاہدہ توڑ نے والا ہے تو اس وقت بھی معاہدے کے غیر مؤثر ہونے کے اعلان سے پہلے حملہ کرنا شرعاً جائز نہیں۔ ٭ اگر دشمن معاہدہ فسخ کرنے کا اعلان کر دے اور معاندانہ طرز عمل شروع کر دے تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر عمل میں آیا۔

ان آیات کی شان نزول مدینہ اور اس کے اطراف میں موجود یہودی ہیں جن کے ساتھ حضور ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد بہتر تعاون اور باہمی امن و آشتی کا معاہدہ کیا تھا۔ مگر یہودی قبائل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ وہ اوس اور خزرج کی پرانی دشمنی کو اٹھاتے تھے۔ انہوں نے مدینہ کے منافقین اور مکہ کے مشرکین کے ساتھ بھی سازباز شروع کر دی تھی۔