آیت 58
 

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِیَانَۃً فَانۡۢبِذۡ اِلَیۡہِمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡخَآئِنِیۡنَ﴿٪۵۸﴾

۵۸۔ اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا خوف ہو تو ان کا عہد اسی طرح مسترد کر دیں جیسے انہوں نے کیا ہے، بیشک اللہ خیانت کاروں کو دوست نہیں رکھتا۔

تفسیر آیات

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ: اسلام خیانت کو پسند نہیں کرتا اور اس کو بطور انسانی مسئلہ پیش کرتا ہے۔ لہٰذا جیسا کہ ایک مسلمان کے ساتھ خیانت درست نہیں ہے، کافر کے ساتھ بھی خیانت جائز نہیں ہے۔ خواہ مقصد کتنا ہی نیک اور مقدس ہو، اس کے لیے خیانت جیسی مذموم چیز کو ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اسلام ان اعلیٰ قدروں کا درس اس زمانے میں دے رہا ہے جس زمانے میں جنگل کا قانون رائج تھا۔ معاہدوں کی پاسداری کے سلسلے میں اسلام نے جو قوانین وضع کیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں :

i۔ زمانہ عہد میں کسی قسم کا معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا جائز نہیں ہے اور ایساعمل خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔

ii۔ اگر دشمن نے معاندانہ طرز عمل اختیار کیا اور ایسے قطعی دلائل سامنے آگئے کہ دشمن معاہدہ توڑنے والا ہے تو اس وقت ضروری ہے کہ کسی قسم کے حملے یا جنگی کاروائی سے قبل معاہدہ کے غیر مؤثر ہونے کا اعلان کیا جائے۔ یکطرفہ معاہدہ فسخ کر کے اعلان جنگ کے بغیر حملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اس حکم کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

iii۔ اگر دشمن علی الاعلان معاہدہ فسخ کر دے اور معاندانہ طرز عمل شروع کر دے، ایسی صورت میں اسلام، دشمنی کے اسی طرز عمل کو اعلان جنگ تصور کرتا ہے، مزید کسی اعلان کے بغیر حملہ کرنا جائز قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر عمل میں آیا۔

کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسالتمآبؐ سے روایت فرمائی ہے۔ فرمایا:

تین چیزیں اگر کسی شخص میں موجود ہوں تو وہ منافق ہے، خواہ نمازی، روزہ دار اور مسلم ہونے کا مدعی کیوں نہ ہو: جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (الکافی: ۲: ۳۹۰)

اہم نکات

۱۔ مقصد خواہ کتنا ہی مقدس ہو، اس کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرنا درست نہیں ہے۔


آیت 58