آیت 53
 

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمۡ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعۡمَۃً اَنۡعَمَہَا عَلٰی قَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۵۳﴾

۵۳۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے اور یہ کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

اس آیت سے ایک نہایت قابل توجہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں کے لیے پیچیدہ ہے۔ وہ یہ کہ کیا انسان تقدیر کے ہاتھوں یا مارکسزم کے نظریہ کے تحت پیداواری وسائل کے ہاتھوں یا دوسرے نظریات کے مطابق جبر تاریخ کے ہاتھوں مجبور ہے یا یہ انسان آزاد و خود مختار ہے۔

اس آیت میں یہ بات واضح ہو گئی کہ انسان کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر کوئی بات اس کے دائرۂ عمل کے باہر سے مسلط نہیں ہوتی۔ وہ کسی نعمت کو اپنے لیے جاری رکھ سکتا ہے اور اپنے ہی عمل سے ختم بھی کر سکتا ہے۔ لہٰذا انسان اپنی تقدیر خود اپنے عمل کے قلم سے لکھتا ہے اور اپنے ارادے کی روشنائی سے اس کی تدوین کرتا ہے۔

اللہ کی نعمت اوراس کی رحمت عام ہے اور اس کا فیض لامحدود ہے۔ تاہم اس نعمت کے لیے ظرفیت اور اہلیت بھی ضروری ہے اور یہ ظرفیت اور اہلیت عمل اور کردار سے بنتی ہے۔ مزید وضاحت سورۂ رعد کی آیت ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ان اللہ قضی قضائً حتماً لا ینعم علی العبد فیسلبھا ایّاہ حتّی یحدث العبد ذنباً یستحق بذلک النقمۃ ۔ (الکافی: ۲: ۲۷۳)

اللہ نے یہ حتمی فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ کسی بندے کو جب نعمت دیتا ہے تو اس وقت تک اس نعمت کو اس سے سلب نہیں فرماتا جب تک وہ ایسے گناہ کا ارتکاب نہ کرے جس سے وہ عذاب کا مستحق بنے۔

اہم نکات

۱۔ یہ انسان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ اس کا مقدر خود اس کے ہاتھ میں دیا ہے۔

۲۔ انسانی ارادہ و عمل کی عظمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جن سے انسانی تقدیر سازی ہوتی ہے۔


آیت 53