وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۶۱﴾

۶۱۔اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

61۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ اسلامی جنگیں دفاعی تھیں۔ چناچہ حکم یہ ہے: اگر صلح و آشتی کے لیے کوئی صورت موجود ہو تو صلح کو ہر صورت میں ترجیح دینی چاہیے۔ اسلامی اخلاق و اقدار کا بھی یہی تقاضا ہے کہ دشمن اگر صلح کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس کے جواب میں ہاتھ بڑھایا جائے۔ مصالحت کا یہ حکم ممکن ہے ابتدائے اسلام میں ہو جب کافروں کی مکاریاں اور سازشیں سامنے نہیں آئیں، بعد میں جب کافر اسلام کو ختم کرنے پر تل گئے تو مسند احمد بن حنبل و بحار الانوار کی متعدد روایات و تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام نے ان کفار کے بارے میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ یا اسلام قبول کریں یا جنگ کے لیے آمادہ ہوں یا جزیہ دے کر معاہدہ کریں۔

وَ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡۤا اَنۡ یَّخۡدَعُوۡکَ فَاِنَّ حَسۡبَکَ اللّٰہُ ؕ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَیَّدَکَ بِنَصۡرِہٖ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۶۲﴾

۶۲۔اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقینا اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے۔

وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۳﴾

۶۳۔اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿٪۶۴﴾

۶۴۔اے نبی ! آپ کے لیے اللہ اور مؤمنین میں سے جس نے آپ کی پیروی کی ہے کافی ہے۔

64۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: اے نبی آپ کے لیے اللہ اور آپ کی اتباع کرنے والے مومنین کافی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پہلا ترجمہ اسلام کے توحیدی مزاج کے مطابق ہونے کی وجہ سے قابل ترجیح ہے۔ ہمارے نزدیک دوسرا ترجمہ توحید کے منافی نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے آیت 62 میں فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَیَّدَکَ بِنَصۡرِہٖ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ اس میں اللہ کی نصرت کے ساتھ مومنین کو شامل کیا ہے۔ حافظ ابو نعیم کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ (الغدیر2: 51)

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلَی الۡقِتَالِ ؕ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ عِشۡرُوۡنَ صٰبِرُوۡنَ یَغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۚ وَ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اے نبی ! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دیں، اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سو افراد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔

اَلۡـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنۡکُمۡ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیۡکُمۡ ضَعۡفًا ؕ فَاِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۚ وَ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ اَلۡفٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَیۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ اب اللہ نے تم لوگوں سے ہلکا کر دیا ہے چونکہ اللہ کو علم ہوا ہے کہ اب تم میں کمزوری آ گئی ہے لہٰذا اب اگر تم میں سو صابر افراد ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو دو ہزار پر باذن خدا غالب آئیں گے اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔

66۔ فتح و غلبے کے لیے مادی سے زیادہ معنوی طاقت درکار ہوتی ہے۔ معنوی طاقت، بیرونی عضلاتی قوت کے لیے قوت محرکہ ہوتی ہے اور طاقت کا توازن قوت محرکہ کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے سابقہ آیت میں فرمایا: تم میں سو افراد ہوں تو ہزار کافروں پر غالب آؤ گے۔ دوسری آیت میں اس قوت محرکہ کی کمزوری کی بنا پر فرمایا: اب تم میں سو افراد ہوں تو وہ صرف دو سو پر غالب آسکیں گے۔

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۷﴾

۶۷۔ یہ کسی نبی کے شایان نہیں ہے کہ زمین میں دشمن کو کچل دینے سے پہلے اس کے پاس قیدی ہوں، تم لوگ دنیاوی مفاد چاہتے ہو جب کہ اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

67۔ اسلامی جنگی حکمت عملی کے مطابق یہ دستور پہلے دیا جا چکا تھا کہ جنگ کے دوران دشمن کی طاقت کو کچلنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے اور قیدی بنانے کا عمل اس کے بعد شروع ہونا چاہیے۔ لیکن بدر میں اس ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ جب دشمن کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے افراد کو قیدی بنانے میں مصروف ہو گیا۔ اگر مسلمانوں کی پوری طاقت دشمن کے تعاقب پر صرف ہوتی تو دشمن کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اس لیے اس عمل پر رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خطاب کر کے مسلمانوں کی سرزنش کی جو کہ اللہ تعالیٰ کا اسلوب خطاب ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے ساری توجہ دشمن کے کچلنے پر مرکوز رکھی تو قریش کے ستر مقتولین میں سے ستائیس افراد صرف آپ علیہ السلام نے قتل کیے اور باقی 43 افراد کل مسلمانوں نے۔

اَثْخَنَ کے معنی کچلنے کے ہیں اور قدم جمانے، اقتدار مضبوط کرنے اور قدم روکنے کے بھی ہیں۔ علامہ عاملی اپنی کتاب النص و الاجتھاد میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں جنگ لڑنے کی جگہ قریش کے تجارتی قافلے کو اسیر بنانا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کی سرزنش میں فرمایا: نبی کے لیے سزاوار نہیں کہ دشمن کو کچل کر اپنے قدم جمانے سے پہلے اسیر بنائے۔

لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمۡ فِیۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک بات لکھی نہ جا چکی ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی تمہیں بڑی سزا ہو جاتی۔

فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۶۹﴾

۶۹۔ بہرحال اب تم نے جو مال حاصل کیا ہے اسے حلال اور پاکیزہ طور پر کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

68۔69 ممکن ہے سورہ محمد کی طرف اشارہ ہو جس میں فدیہ لینے کو حلال قرار دیا تھا۔اس طرح اصل فدیہ لینا پہلے سے حلال کیا جا چکا تھا۔ عتاب اس بات پر ہو رہا ہے کہ مسلمانوں نے دشمن کا تعاقب کرنے پر اسیر کرنے کو ترجیح دی۔ اس عمل سے دشمن کا خاتمہ ہونے سے رہ گیا۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی شخص نماز کے وقت نماز چھوڑ کر حلال شکار پکڑ لے تو نماز پر شکار پکڑنے کو ترجیح دینا بڑا جرم ہے تاہم شکار حلال ہے۔

قاسمی اپنی تفسیر محاسن التاویل8: 99 میں لکھتے ہیں: قاضی نے کہا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اجتہاد کرتے ہیں اور کبھی غلطی کر جاتے ہیں، مگر وہ اس غلطی پر قائم نہیں رہتے۔ جواب یہ ہے کہ یہاں عتاب نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّمَنۡ فِیۡۤ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنَ الۡاَسۡرٰۤی ۙ اِنۡ یَّعۡلَمِ اللّٰہُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ خَیۡرًا یُّؤۡتِکُمۡ خَیۡرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنۡکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۷۰﴾

۷۰۔اے نبی! جو قیدی تمہارے قبضے میں ہیں ان سے کہدیں کہ اگر اللہ کو علم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی اچھائی ہے تو جو تم سے (فدیہ میں) لیا گیا ہے وہ تمہیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور تمہیں معاف کرے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔