بین الاقوامی معاہدے


وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہو گی۔

58 تا 60- یہاں خطاب پوری امت سے ہے۔ جبکہ معاہدے کے بارے میں خطاب رسول ﷺ کریم سے تھا۔ اس سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ معاہدوں کا برقرار رکھنا یا ختم کرنا سربراہ مملکت کی ذمہ داری ہے اور دفاعی وسائل و سامان حرب فراہم کرنا پوری امت کی ذمہ داری ہے۔

مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس مسئلے میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوم یہ کہ اس میں ہر زمانے کی استطاعت شامل ہے۔

مِّنۡ قُوَّۃٍ : قوت میں اسلحہ، مہارت، تربیت اور تجربے کی قوتیں شامل ہیں۔

رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ : اس زمانے میں گھوڑے سامان حرب میں شامل ہونے کے ساتھ سریع ترین مواصلاتی ذریعہ بھی تھے۔ جنگ میں مواصلات کو آج بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ : اسلحے کی فراہمی کا مقصد صرف اس کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ اکثر اسلحے امن کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ نہیں فرمایا تقتلون بہ تاکہ تم اس سے دشمن کو قتل کرو، بلکہ فرمایا: تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ تاکہ تم اس اسلحے سے دشمن کو مرعوب کرو۔

وَ اٰخَرِیۡنَ : عسکری منصوبہ بندی میں صرف موجودہ صورت حال پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دشمن کی محسوس قوت کے ساتھ غیر محسوس طاقت کا بھی اندازہ لگانا ہو گا۔

وَ مَا تُنۡفِقُوۡا : اس سلسلے میں عوام کی طرف سے مالی معاونت ضروری ہے۔