آیات 39 - 40
 

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہو جائے، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ یقینا ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ﴿۴۰﴾

۴۰۔اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے، جو بہترین سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَاتِلُوۡہُمۡ: جس فتنے کا اسلام خاتمہ چاہتا ہے، وہ ہے جس میں لوگوں کو امن و امان نہ ملے، عقیدے اور نظریے کی آزادی نہ ہو، مذہب کی بنیاد پر انسانیت سوز مظالم روا رکھے جائیں ، جنگ مسلط کی جائے اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی جائے۔ یعنی مسلمانوں کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ اس فتنے کے خاتمے تک جنگ کرو تاکہ لوگ آزادانہ طور پر اپنے لیے مذہب کا انتخاب کر سکیں۔ آزادی کے لیے لڑو، جبر و اکراہ کے خلاف لڑو، نہ یہ کہ جنگ کے ذریعے تم بھی جبر و اکراہ کرو۔ ہم نے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ( بقرۃ: ۲۵۶) کے ذیل میں یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی جنگیں سلب شدہ آزادی کے حصول کے لیے تھیں ، نہ کہ آزادی کو سلب کرنے کے لیے۔ اس آیت سے بھی اسلامی انسانیت ساز نظریے کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اسلام فتنہ کے خاتمے کے لیے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے، نہ کہ جنگ کے ذریعے فتنہ قائم کرنے کا۔

چنانچہ ان کافروں کے ساتھ اسلام کی کوئی جنگ نہیں ہے جو فتنہ انگیزی میں ملوث نہیں ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ جو اہل ذمہ ہیں ، جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہے:

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (۶۰ ممتحنۃ: ۸)

جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتا اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۲۔ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ: جب صرف اللہ ہی کی پرستش ہو گی تو زمین سے فساد کا خاتمہ ہو گا۔ یہاں اللہ کے علاوہ کسی ظالم، کسی خودسر استبدادی طاقت کی حکومت نہ ہو گی۔ کسی شرک و بدعت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہو گی تو لوگوں کو اپنی پسند کا دین اختیار کرنے کی آزادی ہو گی اور دین پورا اللہ کے لیے ہو جائے گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لم یجیٔ تاویل ہذہ الآیۃ ولو قد قام قائمنا بعدہ سیری من یدرکہ ما یکون من تاویل ہذہ الآیۃ ۔۔۔ (تفسیر العیاشی ۲: ۵۶۔ مجمع البیان)

اس آیت کی تاویل ابھی نہیں آئی۔ جب ہمارا قائم (حضرت مہدیؑ) ظہور فرمائیں گے تو جو ان کے زمانے میں موجود ہوں گے وہ اس آیت کی تاویل کو سمجھ پائیں گے۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔جب تک روئے زمین پر اسلام دشمن عناصر موجود ہیں فتنہ موجود ہے: حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ ۔۔۔۔

۲۔جب تک اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کا خاتمہ نہیں ہوتا جنگ جاری ہے: وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۔۔


آیات 39 - 40