آیت 32
 

وَ اِذۡ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الۡحَقَّ مِنۡ عِنۡدِکَ فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور (یہ بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا: اے اللہ! اگر یہ بات تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب نازل کر ۔

تفسیرآیات

یہ ایک چیلنج تھا جو رسالتمآبؐ کی دعوت کی حقانیت کے خلاف کیا گیا۔ یہ چیلنج کرنے والا کون تھا؟ مفسرین میں اختلاف ہے۔

علامہ امینی نے الغدیر جلد اول صفحہ ۲۳۹۔ ۲۶۶ میں شیعہ سنی متعدد مصادر سے ذکر کیا ہے کہ یہ چیلنج غدیر کے موقع پر کیا گیا اور چیلنج کرنے والا حارث بن نعمان فہری تھا۔ جب رسول خداؐ نے غدیر کے موقع پر فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ تو حارث فہری نے، جو منافق تھا، کہا: آپؐ نے توحید کا حکم دیا ہم نے مان لیا، بتوں سے بیزاری کا حکم دیا، ہم نے مان لیا، آپؐ کی رسالت کی تصدیق کرنے کے لیے کہا ہم نے تصدیق کی، پھر جہاد، حج، روزہ، نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا، ہم نے مان لیا۔ آپؐ نے ان پر اکتفا نہ کیا اور اس لڑکے کو اپنا خلیفہ بنا دیا اور کہدیا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ۔ کیا یہ آپؐ کی اپنی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ رسول خداؐ نے فرمایا: اللہ کی طرف سے ہے۔ نعمان لوٹا اور کہا: اے اللہ! اگر یہ بات حق ہے اور آپ کی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے۔ اتنے میں ایک پتھر آسمان سے اس پر گرا اور وہ مر گیا۔

آیۂ سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ( ۷۰ معارج: ۱) اسی سلسلے میں نازل ہوئی۔

اس واقعہ کو ابو عبیدہ ہروی متوفی ۲۲۳ھ نے اپنی تفسیر غریب القرآن ، ابوبکر نقاش موصلی متوفی ۳۵۱ھ نے اپنی تفسیر شفاء الصدور ، ابو اسحاق بقلی متوفی ۴۲۷ھ نے اپنی تفسیر، حاکم حسکانی نے دعاۃ الھداۃ ، ابوبکر یحییٰ قرطبی متوفی ۵۶۷ھ نے سورۃ المعارج کی تفسیر، سبط ابن جوزی متوفی ۶۵۴ھ نے تذکرہ ، حموینی متوفی ۷۲۲ھ نے فراید السمطین میں و دیگر ۳۰ کے قریب علماء نے ذکر کیا ہے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں الغدیر جلد اول ص ۲۳۹۔ ۲۶۶۔ یہاں آپ کو اس بارے میں ہونے والے تمام اعتراضات کے جواب بھی ملیں گے۔


آیت 32