آیات 33 - 34
 

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔

وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔اور اللہ ان پر عذاب نازل کیوں نہ کرے جب کہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روکتے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے متولی نہیں ہیں؟ اس کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ: رسول رحمتؐ کا وجود امان ہے ان لوگوں کے لیے جو مستحق عذاب ہیں اور دوسری امان استغفار و توبہ ہے۔ اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ کوئی بھی نبی کسی امت کے درمیان دعوت الی الحق میں مصروف ہو تو اس امت کو مہلت دی جاتی ہے۔ ان کے جرائم کی پاداش میں فوری عذاب نازل نہیں فرماتا۔ اسی طرح اگر اس امت میں کچھ لوگ اپنے سابقہ جرائم پر نادم ہوں اور توبہ و استغفار کی حالت میں ہوں تو بھی اللہ ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا۔

۲۔ وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ: لیکن اگران کے درمیان رسولؐ موجود نہ ہوں اور وہ استغفار کی بجائے جرائم میں مشغول ہوں تو ان پر عذاب نازل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول خداؐ اور دیگر مسلمانوں کی ہجرت کے بعد کفار مکہ کا حال تھا کہ نہ ان میں رسول خداؐ موجود تھے، نہ وہ استغفار کر رہے تھے بلکہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روکنے جیسے بڑے جرائم میں ملوث تھے۔ چنانچہ ان کو قتل و اسیری، رسوائی جیسے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔

۳۔ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ: اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کو اللہ کی عبادت کی جگہ کی تولیت نہیں مل سکتی۔

۴۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ: مسجد کے متولی تو صرف متقی لوگ بن سکتے ہیں ، چونکہ اسلام میں مساجد، اسلامی معاشرے کی تشکیل اور تربیت و تعلیم نیز امور مملکت کی تنظیم و ترویج اور تبلیغ احکام و ابلاغ عامہ جیسے اہم امور کا مرکز ہیں۔ اگر مسجد کی تولیت اہل تقویٰ کے پاس نہ ہو تو وہ اپنے مفادات کے تحفظ میں مسجد کو اپنے حقیقی کردار ادا کرنے سے روک لیں گے بلکہ اس سے بھی بدتر کہ وہ ان مساجد کو فکری انحراف کا مرکز بنائیں گے۔ چنانچہ اس افسوسناک صورت حال سے ہم دوچار بھی ہیں۔

مساجد کے متولی وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو مسجد کے مقاصد، جو اللہ تعالیٰ نے متعین فرمائے ہیں ، کا علم رکھتے ہوں اور ان کے پابند ہوں۔ امامت کے لیے لائق عالم کا انتخاب کرنے والے ہوں۔ بیان احکام میں امام مسجد کو آزادی دیں۔ شریعت کے مسلمات کے خلاف کسی کو بات کرنے اجازت نہ دیں۔ آپس میں اختلاف کر کے عبادت کو گناہ میں بدلنے والے نہ ہوں۔ علم اور عالم کے خلاف نہ ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

العالم لا ینتصف من الجاھل ۔ (غرر الحکم ص ۴۶ باب النوادر)

عالم کو جاہل سے انصاف نہیں ملتا۔

۵۔ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ : مسجد کے آداب و حقوق سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ قابض رہنا چاہتے ہیں۔

مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

کَانَ فِی الْاَرْضِ اَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللہِ وَ قَدْ رُفِعَ اَحَدُھُمَا فَدُونَکُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّکُوا بِہِ۔ اما الامان الذی رفع فھو رسول اللہ ص و اما الامان الباقی فالاستغفار۔ قال اللہ تعالی ۔۔ ( و قرأ ھذہ الآیۃ ) (نہج البلاغۃ خ ۸۸)

دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں۔ ایک ان میں سے اٹھ گئی مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اٹھا لی گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا۔ (پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی)

اہم نکات

۱۔ گناہ سے تائب ہو کر استغفار کی صورت میں عفو کی امید رکھی جاتی ہے، نہ یہ کہ گناہ کا ارتکاب جاری رکھ کر عفو کی امید رکھی جائے۔

۲۔ مسجد کا متولی ہونے کے لیے بھی تقویٰ شرط ہے: اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ ۔۔۔۔


آیات 33 - 34