دعوت انبیاء اور مراعات یافتہ طبقہ


قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ کہا: اے میری قوم! مجھ میں تو کوئی گمراہی نہیں بلکہ عالمین کے رب کی طرف سے ایک رسول ہوں۔

61۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے سامنے ہمیشہ اس قوم کا مراعات یافتہ طبقہ رکاوٹ بنتا رہا، کیونکہ الہٰی دعوت عدل و انصاف اور برادری و برابری کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے جس سے یہ مراعات یافتہ طبقہ متأثر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے انبیاء کی دعوت کو غریب طبقے میں پذیرائی ملی اور طاغوتی طاقتوں نے اس کا مقابلہ کیا۔

اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔میں اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

62۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی رسالت کے اوصاف بیان فرما رہے ہیں۔ وہ تین باتوں سے عبارت ہے: 1۔ تبلیغ رسالت 2۔ نصیحتیں 3۔ علم کے مقام پر فائز ہونا۔ الٰہی منصب پر فائز ہونے کے لیے علم اولین شرط ہے۔

شروع ہی سے تمام انبیاء پر ایک اعتراض یہ وارد کرتے رہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی پیغام لاتا ہے تو وہ ایسی ذات ہو جو مافوق الفطرت ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص ہمارے درمیان میں پلا بڑھا ہو وہی اللہ کی نمائندگی کے مقام پر فائز ہو۔

اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے؟ اور تم تقویٰ اختیار کرو، شاید اس طرح تم رحم کے مستحق بن جاؤ۔

فَکَذَّبُوۡہُ فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ فِی الۡفُلۡکِ وَ اَغۡرَقۡنَا الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا عَمِیۡنَ﴿٪۶۴﴾

۶۴۔ مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تھی انہیں غرق کر دیا، کیونکہ وہ اندھے لوگ تھے۔

وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور قوم عاد کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، کیا تم (ہلاکت سے) بچنا نہیں چاہتے؟

65۔ حضرت ہود علیہ السلام بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح۔ سامی نسل کے سب سے قدیم ترین نبی ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ آپ عربی تھے جب کہ عربی یعرب بن قحطان بن ہود کی نسل سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ عربوں کے سلسلۂ نسب میں ضرور آتے ہیں۔

قوم عاد: اگرچہ عرب کا سلسلہ تو یعرب بن قحطان سے شروع ہوتا ہے اور عاد یعرب سے پانچ پشت پہلے کا ہے۔ یعرب بن قحطان بن ہود بن عبد اللہ بن ریاح بن الجلود بن عاد۔ تاہم سلسلۂ نسب کے اعتبار سے قوم عاد کو قدیم ترین عرب قوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔

قرآن کے مطابق اس قوم کا مسکن الاحقاف کی سر زمین تھی۔ احقاف کا علاقہ شرقاً غرباً عمان سے یمن تک اور شمالاً جنوباً نجد سے حضر موت تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ قوم اپنے زمانے کی تمدن یافتہ تھی۔ اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ﴿﴾ الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ﴿﴾ ۔ (فجر: 7۔ 8) ارم کے ستونوں والے جس کا مثل شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔ دوسری جگہ قرآن میں آیا ہے: فَاَصۡبَحُوۡا لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ۔ (احقاف: 25) قوم عاد ایسے ہو گئے کہ سوائے ان کے مکانات کے اور کچھ دیکھنے کو نہیں رہا۔ ان علاقوں میں حضرت ہود علیہ السلام کے ذکر پر مشتمل کتبے بھی ملے ہیں۔ اخیراً عمان کے جنوب میں ایک مقام پر کھدائی سے آبار نامی شہر کے آثار دریافت ہوئے ہیں جو غالباً حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد سے مربوط ہیں۔

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہمیں تو تم احمق لگتے ہو اور ہمارا گمان ہے کہ تم جھوٹے بھی ہو۔

قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! میں احمق نہیں ہوں، بلکہ میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔

اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ﴿۶۸﴾

۶۸۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا ناصح (اور) امین ہوں۔

اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ ؕ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ زَادَکُمۡ فِی الۡخَلۡقِ بَصۜۡطَۃً ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے؟ اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایا اور تمہاری جسمانی ساخت میں وسعت دی (تنومند کیا)، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، شاید تم فلاح پاؤ۔

قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِنَعۡبُدَ اللّٰہَ وَحۡدَہٗ وَ نَذَرَ مَا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔

70۔ اس آیت اور دیگر متعدد آیات و تاریخی اور دیگر شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام قدیم قومیں خدا پرست تھیں۔ انبیاء لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے ہیں، یعنی اصل دین لوگوں میں فطرتاً موجود تھا۔ انبیاء انحرافات کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ اس سے یہ فرض باطل ثابت ہوتا ہے کہ دین خوف، جہالت اور اقتصادی عوامل وغیرہ کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔

قَالَ قَدۡ وَقَعَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ رِجۡسٌ وَّ غَضَبٌ ؕ اَتُجَادِلُوۡنَنِیۡ فِیۡۤ اَسۡمَآءٍ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ فَانۡتَظِرُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ ہود نے کہا : تمہارے رب کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب مقرر ہو چکا ہے، کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں؟ اللہ نے تو اس بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

71۔ دنیا میں مختلف قوموں نے جن جن کو خدائی کا مقام دیا ہے اور اپنے وہم و گمان کی بنا پر ان کو خدائی کا کچھ حصہ دیا اور اس کے لیے ایک نام تجویز کیا جو اللہ کے ساتھ شریک اور خدائی اختیارات میں حصہ دار ہونے کا عندیہ دیتا ہے۔ ان کے پاس کوئی دلیل و سند بھی نہیں ہوتی، صرف باپ دادا کی اندھی تقلید ہی کو سند کا درجہ دیتے ہیں۔

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا وَ قَطَعۡنَا دَابِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا کَانُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿٪۷۲﴾

۷۲۔ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ہود اور انکے ساتھیوں کو بچا لیا اور جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی (کیونکہ) وہ تو ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔

72۔ قوم عاد کا وہ حصہ جو عذاب الٰہی سے نابود ہو گیا اسے عاد اولیٰ کہتے ہیں اور حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ جو حصہ باقی رہا اسے عاد ثانیہ کہتے ہیں۔

وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمۡ اٰیَۃً فَذَرُوۡہَا تَاۡکُلۡ فِیۡۤ اَرۡضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۳﴾

۷۳۔اور قوم ثمود کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آ چکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اسے اللہ کی زمین میں چرنے دینا اور اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔

73۔ ثَمُوۡدَ : قوم ثمود کا نام ان کے بزرگ ثمود بن جیشر کی طرف منسوب ہے۔ قوم ثمود عرب کے مغربی و شمالی علاقوں میں آباد تھی۔ ان کے دار الحکومت کا نام الحجر تھا جس کا موجودہ نام مدائن صالح ہے جو حجاز سے شام کو جانے والے قدیم راستے پر واقع ہے۔

حضرت صالح بن آسف بن کاشح بن اردم بن ثمود بن جیشر بن ارم بن سام بن نوح۔ ناقۂ صالح کے بارے میں کچھ حضرات کا یہ خیال درست نہیں کہ یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ صرف امان کی علامت تھی جبکہ قرآن کی صریح آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ناقۂ صالح ایک معجزہ تھی۔

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تَتَّخِذُوۡنَ مِنۡ سُہُوۡلِہَا قُصُوۡرًا وَّ تَنۡحِتُوۡنَ الۡجِبَالَ بُیُوۡتًا ۚ فَاذۡکُرُوۡۤا اٰلَآءَ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور یاد کرو جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں آباد کیا، تم میدانوں میں محلات تعمیر کرتے ہو اور پہاڑ کو تراش کر مکانات بناتے ہو، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔

74۔ قوم ثمود اپنے زمانے کی متمدن قوم تھی۔ وہ میدانوں میں قلعے اور محلات تعمیر کرتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر عالی شان محلات بناتے تھے۔ چنانچہ مدائن صالح میں آج تک ان عمارتوں کے آثار نمایاں طور پر موجود ہیں۔ بعض روایات کے مطابق رسول کریم ﷺ غزوﮤ تبوک کو جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرے تو آپ ﷺنے اس کنویں کی نشاندہی فرمائی جس سے ناقہ صالح پانی پیتی تھی اور فج الناقۃ نامی وہ درہ بھی دکھایا جہاں سے بعض روایات کے مطابق اونٹنی نکلی تھی۔

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِمَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور طبقہ اہل ایمان سے کہا: کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجے گئے(رسول)ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: جس پیغام کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔

75۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے سامنے مراعات یافتہ، خوشحال طبقہ ہی رکاوٹ بنتا ہے، کیونکہ عدل و انصاف سے یہی طبقہ متأثر ہوتا ہے۔ محروم طبقہ ہمیشہ عدل و انصاف چاہتا ہے نیز مراعات یافتہ طبقے میں غرور و سرکشی آ جاتی ہے۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ﴿﴾اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿﴾ (علق:6۔7) انسان جب اپنے آپ کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے۔ قوم ثمود کے مراعات یافتہ طبقہ مستکبرین نے اپنی رعونت کے ساتھ ایمان والے محروم طبقہ مستضعفین سے کہا: اَتَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرۡسَلٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ؟ اہل ایمان پوری استقامت کے ساتھ ان کے سامنے یہ کہ کر ڈٹ گئے: اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلَ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ﴿﴾ ہم اس کے ہر پیغام پر ایمان لاتے ہیں۔