آیات 60 - 61
 

قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶۰﴾

۶۰۔ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا :ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔

قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ کہا: اے میری قوم! مجھ میں تو کوئی گمراہی نہیں بلکہ عالمین کے رب کی طرف سے ایک رسول ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ: انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے ساتھ ہمیشہ اس قوم کا مراعات یافتہ طبقہ رکاوٹ بنتا رہا،کیونکہ الٰہی دعوت عدل و انصاف، برادری و برابری کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے، جس سے یہ مراعات یافتہ طبقہ متاثر ہوتا ہے اور محروم طبقہ مستفیض ہوتا ہے۔اسی وجہ سے انبیاء کی دعوت کو غریب طبقہ میں پذیرائی ملی اور طاغوتی طاقتوں نے اس کا مقابلہ کیا۔

۲۔ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ: اپنے رسم و رواج اور عادات کو حق اور اس کے خلاف ہر بات کو گمراہ سمجھنا جہالت کی نمایاں علامت ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان قابل توجہ ہے:

الناس اعداء ما جھلوا ۔ ( نہج البلاغۃ حکمت: ۱۷۲)

لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جس کو وہ نہیں جانتے۔

۳۔ قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ: حضرت نوح علیہ السلام کا جواب یہ تھا کہ میں گمراہ نہیں ہوں۔ میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔ رب العالمین ہی حق اور حقیقت ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے والے ضلالت پر ہیں۔


آیات 60 - 61