آیت 65
 

وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور قوم عاد کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، کیا تم (ہلاکت سے) بچنا نہیں چاہتے؟

تشریح کلمات

اخ:

( ا خ و ) بھائی۔ ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کی ولادت میں ماں یا باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو، اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو، جو قبیلہ، دین و مذہب، صنعت و حرفت، دوستی یا کسی دیگر معاملے میں دوسرے کا شریک ہو، اخ کہا جاتا ہے۔ (راغب)

اس آیت میں حضرت ہودؑ کو قوم عاد کا بھائی، ہم قبیلہ ہونے کی وجہ سے کہا ہے۔ چنانچہ دوسرے انبیاء کے لیے مِنۡہُمۡ (انہی کا ایک فرد) کا لفظ استعمال فرماتا ہے۔

تفسیر آیات

حضرت ہود بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح ۔ سامی نسل کے سب سے قدیم ترین نبی ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ آپؑ عربی تھے۔ جب کہ عربی، یعرب بن قحطان بن ہود سے شروع ہوتے ہیں، البتہ عربوں کے سلسلۂ نسب میں ضرور آتے ہیں۔

قوم عاد: اگرچہ عرب کا سلسلہ تو یعرب بن قحطان سے شروع ہوتا ہے اور عاد، یعرب سے پانچ پشت پہلے کا ہے۔ یعرب بن قحطان بن ہود بن عبد اللہ بن ریاح بن جلود بن عاد ۔ تاہم سلسلۂ نسب کے اعتبار سے قوم عاد کو قدیم ترین عرب قوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔

قرآن کے مطابق اس قوم کا مسکن الاحقاف کی سرزمین تھی ۔ احقاف کا علاقہ شرقاً غرباً عمان سے یمن تک اور شمالاً جنوباً نجد سے حضرموت تک پھیلا ہوا تھا۔

یہ قوم اپنے زمانے کی تمدن یافتہ تھی:

اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۔۔۔۔ (۸۹ فجر:۷ ۔ ۸)

ستونوں والے ارم کے ساتھ، جس کی نظیر کسی ملک میں نہیں بنائی گئی۔

دوسری جگہ قرآن میں آیا ہے:

فَاَصۡبَحُوۡا لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ۔۔۔۔ (۴۶ احقاف: ۲۵)

پھر وہ ایسے ہو گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ۔۔۔۔

ان علاقوں میں حضرت ہودؑ کے ذکر پر مشتمل کتبے بھی ملے ہیں۔ اخیراً عمان کے جنوب میں ایک مقام پر کھدائی سے آبار نامی شہر کے آثار دریافت ہوئے ہیں، جو غالباً حضرت ہودؑ کی قوم عاد سے مربوط ہیں۔ قوم عاد کے بارے میں سورہ ہائے ہود، احقاف اور فجر میں مزید ذکر آئے گا۔

قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ: تمام انبیاء کی دعوت کی اساس، ایک معبود کی پرستش، ایک مالک کی بندگی، ایک رب کو پکارنے پر استوار ہے۔

مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ اس ایک حقیقی معبود کے سوا کسی اور معبود کا وجود نہیں ہے۔ جس معبود کو تم پوجتے ہو، وہ خود تمہارا خود ساختہ ہے۔ خیال و سراب ہے۔

اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ: کیا تم اپنا بچاؤ کرنا نہیں چاہتے۔ خداوند کریم اور انبیاء کو انسانوں کو بچانے کے علاوہ کسی سے کوئی اور غرض نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ صرف اللہ کی عبادت کرو ۔ یہ تمام انبیاء علیہم السلام کا نعرہ ہے: یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ ۔۔۔۔


آیت 65