آیات 62 - 63
 

اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔میں اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَ لِتَتَّقُوۡا وَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے؟ اور تم تقویٰ اختیار کرو، شاید اس طرح تم رحم کے مستحق بن جاؤ۔

تفسیر آیات

۱۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی رسالت کے اوصاف بیان فرما رہے ہیں۔ وہ تین باتوں سے عبارت ہے:

اُبَلِّغُکُمۡ : میں اپنے رب کے پیغامات تم تک پہچانتا ہوں۔

ii۔ وَ اَنۡصَحُ لَکُمۡ: خود لوگوں کے مفاد کی باتیں بتانا نصیحت ہے۔ چنانچہ نصیحت کے خلوص سے معنی کیے گئے ہیں۔

iii۔ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ: قوم نوح ابھی ابتدائی بشری زندگی میں تھی۔ ان کے ہاں تمدن و تعلم کا فقدان تھا۔ وہ نہایت سطحی ذہن کے لوگ تھے۔ ان کو عذاب، ثواب، قیامت، آخرت، آخروی زندگی وغیرہ کے بارے میں معلومات نہ تھیں۔ اس لیے فرمایا: میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

۲۔ اَوَ عَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ: شروع ہی سے تمام انبیاء پر ایک اعتراض یہ وارد کرتے رہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی پیغام لاتا ہے تو وہ ایسی ذات ہو جو مافوق الفطرت ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص ہمارے درمیان میں پلا بڑھا ہو، وہی اللہ کی نمائندگی کے مقام پر فائز ہو۔

اس کا جواب قرآن نے مختلف مقامات پر مدلل انداز میں دیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ انعام: ۹

وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ

اور اگر ہم اسے فرشتہ قرار دیتے بھی تو مردانہ (شکل میں) قرار دیتے اور ہم انہیں اسی شبہ میں مبتلا کرتے جس میں وہ اب مبتلا ہیں۔

ابنیاء کے مبعوث کرنے کے یہاں چند ایک مقاصد بیان ہوئے ہیں:

لِیُنۡذِرَکُمۡ: تنبیہ کرنا۔ آنے والے خطرات سے تنبیہ کرنا۔

ii۔ وَ لِتَتَّقُوۡا: لوگ ان خطرات سے محفوظ رہیں۔

iii۔ رحمت الٰہی ان کے شامل حال رہے۔


آیات 62 - 63