آیات 66 - 68
 

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہمیں تو تم احمق لگتے ہو اور ہمارا گمان ہے کہ تم جھوٹے بھی ہو۔

قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! میں احمق نہیں ہوں، بلکہ میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔

اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ﴿۶۸﴾

۶۸۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا ناصح (اور) امین ہوں۔

تفسیر آیات

اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ: قدیم و جدید جاہلیت، ناخواندہ اور تہذیب یافتہ، دوسرے لفظوں میں غیر منظم اور تنظیم یافتہ جاہلیت ایک ہی مؤقف، ایک ہی نعرہ اور ایک ہی سوچ رکھتی ہے۔ قدیم جاہلیت اپنے پیغمبروں کو گمراہ، احمق، دیوانہ اور جادوگر کے الفاظ سے یاد کرتی تھی۔ آج کی منظم جاہلیت انبیاء (ع) کے نقش قدم پر چلنے والوں کو رجعت پسند، جمود پرست اور بنیاد پرست کے لفظوں سے یاد کرتی ہے: تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ : ۱۱۸) دل را بدل رہیست ۔

اِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ: یہاں ظن علم و یقین کے معنوں میں ہے۔ قوم عاد کا اپنے رسول سے سلوک بتاتا ہے کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ آپؑ کاذب ہیں۔ اس پر اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ بھی قرینہ ہے۔ البتہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے: فِیۡ سَفَاہَۃٍ ۔ ظن بمعنی گمان کے لیے قرینہ بن سکتا ہے۔

جواب میں حضرت ہودؑ نے اپنا تعارف اس طرح کرایا کہ میں عالمین کے پروردگار کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں۔ میرا کام تبلیغ احکام اورتمہیں نصیحت اور حق کی راہ کی طرف تمہاری ہدایت کرنا ہے۔ ان سب ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے میں امین ہوں۔

اہم نکات

۱۔ سطحی اور مادی سوچ رکھنے والے، دینداروں کو بے وقوف سمجھتے ہیں: اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ سَفَاہَۃٍ ۔۔۔۔

یہ ایسا ہے کہ ہمیشہ کی صحت کے لیے معالجے کی وقتی تکلیف اٹھانے کو کوئی حماقت سمجھے۔

۲۔ رہبر و قائد وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو نصیحت کرنے کی پوزیشن میں ہو اور امین ہو۔ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ ۔


آیات 66 - 68