بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ ص

اس سورہ کی ابتدائی آیات کے شان نزول میں روایت ہے کہ ابوجہل اور ابوسفیان کی معیت میں قریش کی ایک جماعت حضرت ابوطالب علیہ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی: ہم آپ سے انصاف کی بات کرنے آئے ہیں۔ آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑے اور ہمارے خداؤں کو کچھ نہ کہے تو ہم بھی اس کو اس کے دین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی باتوں کا ذکر کیا تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا: کیا وہ ایک کلمہ کہنے کے لیے تیار ہیں؟ جس کی بدولت وہ عربوں پر حکمرانی کریں اور ان کی گردنیں ان کے سامنے جھک جائیں؟ وہ کہنے لگے: اگر ایک کلمہ سے عربوں پر حکمرانی کرنے کا موقع ملتا ہے تو ہم کہ لیں گے۔ وہ کون سا کلمہ ہے؟ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ ۔ پس یہ سن کر وہ سب اٹھ کر چلے گئے اور وہی باتیں کیں جو اس سورے کی ابتدا میں مذکور ہیں۔

صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾

۱۔صاد، قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت والا ہے۔

بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ﴿۲﴾

۲۔ مگر جنہوں نے (اس کا) انکار کیا وہ غرور اور مخالفت میں ہیں۔

کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ فَنَادَوۡا وَّ لَاتَ حِیۡنَ مَنَاصٍ﴿۳﴾

۳۔ ان سے پہلے ہم کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں پھر (جب ہلاکت کا وقت آیا تو) فریاد کرنے لگے مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔

وَ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ ۖ﴿ۚ۴﴾

۴۔ اور انہوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ خود انہی میں سے کوئی تنبیہ کرنے والا آیا اور کفار کہتے ہیں: یہ جھوٹا جادوگر ہے۔

4۔ جس پر اس شخص کا جادو چل جاتا ہے، وہ کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتا۔ تمام مفادات حتیٰ کہ وطن سے بھی ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔

اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عُجَابٌ﴿۵﴾

۵۔ کیا اس نے بہت سے معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود بنا لیا؟ یہ تو یقینا بڑی عجیب چیز ہے۔

5۔ بے شمار معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود؟ کیسی عجیب بات ہے۔ زندگی کی ہر ضرورت کے لیے الگ الگ معبود ہوا کرتا ہے۔ تمام ضروریات کے لیے صرف ایک معبود ہماری ثقافت میں ایک نا مانوس لفظ ہے۔ واضح رہے مشرکین زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک معبود سے اپنی توقعات وابستہ رکھتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔

وَ انۡطَلَقَ الۡمَلَاُ مِنۡہُمۡ اَنِ امۡشُوۡا وَ اصۡبِرُوۡا عَلٰۤی اٰلِہَتِکُمۡ ۚۖ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ یُّرَادُ ۖ﴿ۚ۶﴾

۶۔ اور ان میں سے قوم کے سرکردہ لوگ یہ کہتے ہوئے چل پڑے: چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر قائم رہو، اس چیز میں یقینا کوئی غرض ہے۔

6۔ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کلمۂ توحید کی پیش کش سن کر یہ لوگ یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے: یہ تو کچھ عزائم رکھتا ہے۔ یہ خود ہم پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔ کلمہ توحید کی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ ہم محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تابع فرماں ہو جائیں۔

مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِی الۡمِلَّۃِ الۡاٰخِرَۃِ ۚۖ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا اخۡتِلَاقٌ ۖ﴿ۚ۷﴾

۷۔ ہم نے کبھی یہ بات کسی پچھلے مذہب سے بھی نہیں سنی، یہ تو صرف ایک من گھڑت (بات) ہے۔

7۔ یعنی اس دعوت کی کوئی بنیاد پچھلے ادیان میں بھی نہیں ملتی کہ صرف ایک ہی خدا پر اکتفا کرو۔

ءَ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡ ذِکۡرِیۡ ۚ بَلۡ لَّمَّا یَذُوۡقُوۡا عَذَابِ ؕ﴿۸﴾

۸۔ کیا ہمارے درمیان اسی پر یہ ذکر نازل کیا گیا؟ درحقیقت یہ لوگ میرے ذکر پر شک کر رہے ہیں بلکہ ابھی تو انہوں نے عذاب چکھا ہی نہیں ہے۔

فِیۡ شَکٍّ مِّنۡ ذِکۡرِیۡ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں میرے ذکر کے بارے میں شک ہے، ورنہ خود محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ لوگ اس سے پہلے امین کہتے تھے۔

اَمۡ عِنۡدَہُمۡ خَزَآئِنُ رَحۡمَۃِ رَبِّکَ الۡعَزِیۡزِ الۡوَہَّابِ ۚ﴿۹﴾

۹۔ کیا ان کے پاس تیرے غالب آنے والے فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں؟

اَمۡ لَہُمۡ مُّلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۟ فَلۡیَرۡتَقُوۡا فِی الۡاَسۡبَابِ﴿۱۰﴾

۱۰۔ یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب پر ان کی حکومت ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو (آسمان کے) راستوں پر چڑھ دیکھیں۔

10۔ خدا کی طرف سے عہدہ دینا خدا ہی کا کام ہے۔ ان کو کب اختیار دیا گیا کہ نبوت کس کو دی جائے اور کس کو نہ دی جائے؟ اگر ان لوگوں کا بس چلتا تو یہ آسمانی راستوں پر چڑھ کر یہ کوشش کرتے کہ جس کو ہم نبوت دینا چاہتے ہیں اس پر وحی نہ ہو۔