آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ صٓ

اس سورۃ مبارکہ کا نام اس کی ابتدا میں مذکور حرف مقطع صاد سے ماخوذ ہے۔ یہ سورۃ مکی ہے۔ زمان نزول کا تعین مشکل ہے چونکہ اس سورۃ کے نزول کے بارے منقول روایات متصادم ہیں۔

طبرسی نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے:

رؤسائے قریش میں سے پچیس افراد جن میں ابوجہل، ابی بن خلف، امیۃ بن خلف اور ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ، نضر بن حارث وغیرہ شامل ہیں اپنے سردار ولید بن مغیرہ کے ساتھ ابو طالب علیہ السلام کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں: آپ ہمارے سردار اور بزرگوار ہیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیاں انصاف کریں۔ وہ ہمیں کم عقل، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے۔ ابو طالب علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا اور کہا :بھتیجے! یہ تمہاری قوم ہے۔ آپ سے ایک خواہش رکھتے ہیں۔ فرمایا: کیا خواہش ہے؟ کہا: کہتے ہیں: ہمیں اپنے معبودوں کو پوجنے دو۔ تم اپنے معبود کی عبادت کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک کلمہ کا اقرار کرلو۔ تم عرب و عجم پر حکمرانی کرو گے۔ اس پر ابوجہل نے کہا: ہم ایک نہیں دس کلمے کہیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرو۔ یہ سن کر وہ اٹھ گئے یہ کہتے ہوئے کہ کئی معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود بنا لیا۔

بعض روایت میں آیا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیض و غضب میں آئے اور فرمایا:

چچا اگر سورج میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیا جائے اور چاند میرے بائیں ہاتھ پر تو بھی میں اس دعوت کو نہیں چھوڑوں گا اگرچہ میں قتل کیا جاؤں۔

حضرت ابو طالب علیہ السلام نے فرمایا:

اپنا کام جاری رکھو۔ قسم بخدا ! میں کبھی آپ کی مدد کرنا نہیں چھوڑوں گا۔

چنانچہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کا رد عمل ان کے اشعار میں آیا ہے:

واللہ لن یصلوا الیک بجمعھم

حتی اوسد فی التراب دفینا

فاصدع بامرک ما علیک غضاضۃ

و ابشر بذلک و قر منک عیونا

ولقد علمت بان دین محمد

من خیر ادیان البریۃ دینا

قسم بخدا جب تک میں زیر خاک دفن نہ ہو جاؤں آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ آپ اپنی دعوت جاری رکھیں۔ آپ کو کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ آپ مطمئن رہیں اور آنکھوں میں ٹھنڈک رہے۔ میں جان گیا ہوں کہ محمد کا دین، تمام ادیان سے بہتر دین ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾

۱۔صاد، قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت والا ہے۔

بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ﴿۲﴾

۲۔ مگر جنہوں نے (اس کا) انکار کیا وہ غرور اور مخالفت میں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الۡقُرۡاٰنِ: نصیحتوں سے لبریز اس قرآن کی قسم۔ اس قرآن کی نصیحتوں میں کوئی خلل نہیں ہے، نہ اس کے قائم کردہ دلائل میں کوئی سقم ہے، نہ ان حقائق میں کوئی ابہام ہے جو یہ پیش کرتا ہے

۲۔ بلکہ خود کافروں کے ذہنوں پر تکبر اور غرور کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی نے ان سے سوچنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔


آیات 1 - 2