آیت 4
 

وَ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ ۫ وَ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ ۖ﴿ۚ۴﴾

۴۔ اور انہوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ خود انہی میں سے کوئی تنبیہ کرنے والا آیا اور کفار کہتے ہیں: یہ جھوٹا جادوگر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ عَجِبُوۡۤا: حالانکہ تعجب اس پر ہونا چاہیے تھا کہ اگر ان کی طرف ایک ایسے اجنبی شخص نے آ کر نبوت کا دعویٰ کیا ہوتا جس کے ماضی کا علم نہ ہوتا اور کردار کا کسی کو تجربہ نہ ہوتا۔ اس کی قوم و قبیلہ کا پتہ نہ ہوتا تو اس صورت میں انہیں کہنا چاہیے تھا کہ تعجب کی بات ایک انجان شخص نے آ کر اچانک ہمارے درمیان نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ ہم اسے جانتے تک نہیں۔

اسی طرح اگر وہ رسول مِّنۡہُمۡ نہ ہوتا انسان نہ ہوتا۔ آسمان سے کوئی فرشتہ نازل ہوتا تو بھی تعجب کی بات تھی کہ بھلا ایسا رسول کس طرح ہمیں راہ راست پر لا سکتا ہے جو ہمارے ساتھ جذبات و ضروریات میں شریک نہ ہو۔ ہماری طرح کوئی احساسات نہ رکھتا ہو۔ ہمارے لیے نمونۂ عمل اور مشعل راہ نہ بن سکتا ہو۔

۲۔ وَ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ: اگرچہ وہ دل سے جانتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کاسحر اور جادو سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور یہ بھی جانتے تھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن اس دعوت کو رد کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں بنایا کرتے تھے۔


آیت 4